لاہور کی سوسائٹی جہاں پلاٹ 4100 سو روپے کا تھا۔ تحریر:محمد عبیداللہ

لاہورکے جنوب مشرق میں ایک رہائشی علاقہ نشتر کالونی کے نام سے مقبول ہے۔نشتر کالونی لاہور کی مرکزی سڑک فیروزپور روڈ پر واقع ہے ۔اس کالونی کو بنیادی طور پر مزدور طبقہ کے لیے بنایا گیا۔سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے عہد میں اس کالونی کی سنگ بنیاد رکھی۔تمام پلاٹ پانچ مرلہ کی کٹنگ میں تقسیم کیے گئے ۔محمد خاں جنیجو کے عہد میں جب میاں محمد نواز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب بنے تو انہوں نے اس کالونی کی مزید کٹنگ کرتے ہوئے تمام پلاٹوں کو تین تین مرلہ میں تقسیم کر دیا ۔قرعہ اندازی کے ذریعہ سے تمام پلاٹ مزدور طبقہ (لیبر کلاس) کو فروخت کیے گئے۔ چار ہزار ایک سو روپے (4100)کی معقول رقم میں پلاٹ لوگوں کے حوالے کیے گئے۔اس میں ایک ہزار روپے نقد جمع کروانے تھے جبکہ بقیہ رقم ایک سو روپے ماہانہ اقساط کے ذریعے جمع کروانے تھے۔جیسا کہ قبل از ذکر ہے کہ یہ کالونی خاص طور پر مزدور طبقہ کے لیے مختص کی گئ ۔ اس سے مراد یہ تھا کہ ایک مخصوص حد سے زیادہ آمدنی والا شخص اسے

 

 

خرید  نہیں سکتا تھا۔اگر موجودہ دور کی بات کریں تو یہ اکتالیس سو روپے کا پلاٹ اب چار کروڑ روپے کی مالیت سے بھی تجاوز کر گیا ہے۔دورحاضر کی بات کریں تو نشتر کالونی کی آبادی ایک لاکھ دس ہزار کے قریب ہے ۔اس کا رقبہ ایک سو سینتالیس ایکڑ (147 ایکڑ)ہے جو کہ  4500 تین تین مرلہ کے پلاٹوں میں تقسیم ہے۔یہاں کل ووٹوں کی تعداد بائیس سے تئیس ہزار (22000-23000)کے درمیان ہے
اس کے بنیادی ڈھانچے کی طرف نظر دوڑائی جائے تو اس میں آٹھ چھوٹے بڑے پارک ہیں۔ایک گورنمنٹ پرائمری سکول ہے جبکہ تین سوشل ویلفیئر اسکول ہیں۔ان میں ایک پرائمری سکول ہے جبکہ دو طلباء وطالبات کے لیے علیحدہ علیحدہ ہائر سیکنڈری اسکول ہیں۔اگر نجی اسکولوں کی طرف نگاہ دوڑائیں تو تقریباً بیس کے قریب اسکول ہیں۔دو نجی کالج اور ایک یونیورسٹی بھی ہے۔ یونیورسٹی کا نام “ایفرو ایشین انسٹی ٹیوٹ” ہے جو کہ جی سی فیصل آباد کے ساتھ منسلک ہے۔دو سرکاری ڈسپینسریز اور دس کے قریب نجی ہسپتال موجود ہیں ۔ایک پولیس تھانہ ہے جو کہ نشتر تھانہ کے نام سے مقبول ہے ۔اگر ہم مذہبی نقطۂ نظر سے دیکھیں تو یہاں دس سے پندرہ مساجد ہیں جن میں سے چند کے ساتھ مدرسے بھی منسلک ہیں۔تین قبرستان ہیں۔

علاقہ بھر میں نشتر کالونی کی فوڈ اسٹریٹ ایک خاص درجہ رکھتی ہے ۔کراچی بریانی اور الفضل کی ڈیری پروڈکٹس قابلِ ذکر ہیں ۔تاریخی اعتبار سے یہ علاقہ بہت اہمیت کا حامل ہے ۔نوجوان نسل کو چاہیے کہ اس طرح کے تاریخی علاقہ جات کا مطالعہ کریں ۔امید ہے کہ اس چھوٹی سی کاوش سے تمام قارئین لطف اندوز ہوسکے گے۔و

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *