- ہم جانتے ہیں کہ اہل مغرب انبیاء کو مختلف ناموں سے آزماتے ہیں جیسے کہ حضرت عیسیٰ کو حضرت عیسیٰ کو حضرت داؤد کو داؤد، حضرت سلیمان کو سلیمان، حضرت ابراہیم کو ابراہیم، حضرت اسحاق کو اسحاق، حضرت موسیٰ اور حضرت یوسف کو یوسف۔ ناموں سے جانا جاتا ہے۔ انبیاء کے یہ نام یونانی ناموں کی انگریزی صورت۔
بالکل اسی طرح سے مسلم بھی اہل مغرب میں الگ الگ نام رکھتے ہیں کہ جیسے بو علی سینا کو Avicenna، الفرابی کو Alphacabins، ابن رشد کو Averroes، جابر بن حیان کو Gaber، رازی کو Rhazes اور ابوالقاسمراوی کو Abulcasis۔ ناموں سے مشقت اور جانا جاتا ہے۔
مگر سوال یہ ہے کہ آخر ایک ہی شخص کے لیے دو مختلف نام کیوں؟
دراصل اس کی مختلف وجوہات ہیں۔انبیاء کے ناموں کے حوالے سے اہل مغرب کا دعوی ہے کہ یونانی نام ہی اصلی نام ہیں اور عربی نام یونانی ناموں سے اخذ کیے گئے ہیں۔ اس کے برعکس مسلمانوں کے مطابق عربی نام ہی حقیقی ہیں۔ علاوہ ازیں عربی زبان یونانی زبان سے زیادہ قدیم ہے۔اگر بات مسلم سائنس دانوں کے مختلف ناموں کی کی جائے تو صورت حال مختلف ہے۔ دراصل ان تمام سائنس دانوں کا تعلق سنہرے اسلام دور سے تھا جب مسلمان علم کے میدان میں ترقی کی نئی نئی منازل طے کر رہے تھے۔ قرون وسطی میں مشرق اور مغرب کے درمیان تجارت سے ثقافتی تعلقات اور علمی فروغ میں تیزی آئی۔ لہذا اہل مغرب نے مسلم سائنس دانوں کے ناموں کی لاطینی سازی کی۔ آغاز میں اس کا مقصد مخص لسانی مطابقت اور ثقافتی ہم آہنگی پیدا کرنا تھا اور مغربی ادبی روایات کے ڈھانچے میں ڈھالنا تھا مگر اس کے باعث کئی منفی اثرات پیدا ہوئے۔ جن میں مسلمانوں کی ثقافتی شناخت مسخ ہوئی ان کی علمی کاوشوں کا استحصال کیا گیا اور یورپ مرکزیت کے تعصب نے جنم لیا۔
ناموں کی لاطینی سازی کے باعث بہت سی غلط فہمیاں بھی پھیلی۔ کچھ مغربی لکھاری اور تاریخ دان مثلاً Will Durantاور Sarton نے یہ دعوی بھی کیا کہ ان مسلم سائنسدانوں کا تعلق مغرب سے ہے۔ دورِ حاضر میں حقیقی ناموں کے استمعال پر اصرار کیا جاتا ہے تاکہ اس قوم کی علمی اور ادبی کاوشوں کو صحیح معنوں میں سراہا جاسکے۔