لفظ “لٹریسی” عام طور پر پڑھنے لکھنے کی صلاحیت کو بیان کرتا ہے۔ پڑھنے کی لٹریسی اور میڈیا کی لٹریسی میں بہت کچھ مشترک ہے۔ میڈیا لٹریسی میڈیا کی مختلف اقسام کی شناخت کرنے اور ان کے بھیجے جانے والے پیغامات کو سمجھنے کی صلاحیت ہے۔ بچے ، بڑھے اور بوڑھے روایتی میڈیا (ٹی وی، ریڈیو، اخبارات اور رسائل) سے کہیں زیادہ ذرائع سے بہت زیادہ معلومات حاصل کرتے ہیں۔تمام میڈیا ایک چیز کا اشتراک کرتا ہے: کسی نے اسے بنایا،اور یہ ایک وجہ سے بنایا گیا تھا۔ اس وجہ کو سمجھنا میڈیا کی لٹریسی کی بنیاد ہے۔
پاکستان کے عام شہری ڈس انفارمیشن کا شکار ہیں ۔ خاص کرکے جن کی تعلیمی قابلیت کچھ خاص نہیں ۔غلط معلومات اور اس سے منسلک سماجی بد امنی اس سال ایک اہم مسلۂ ہوگا کیونکہ اس سال امریکہ ،بھارت اور پاکستان سمیت بہت سے ممالک میں انتخابات ہونے جارہے ہیں جس میں 2 عرب سے زیادہ لوگ ووٹ ڈالیں گے۔
جہاں میڈیا اور آرٹیفیشل انٹیلیجینس کے استعمال کے متعدد فوائد وہیں کچھ غیر معمولی نقصانات بھی ہیں جن کی مثال زیل میں دیے گئے کیس سے واضح ہے۔
پابندیوں میں گِھری، گرفتاریوں میں جکڑی اور مقدموں میں الجھی ہوئی پاکستان تحریک انصاف آرٹیفیشل انٹیلیجنس (اے ائی) کی مدد اورمختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے ذریعے اپنی انتخابی مہم زورو شور سے جاری رکھے ہوئے ہے۔
پاکستان میں، جہاں پی ٹی آئی کے چئیرمین عمران خان کا میڈیا میں نام تک لینے پر بھی پابندی رہی ہے وہاں اے آئی کی مدد سے جیل میں قید سابق وزیر اعظم کا پیغام ان کی اپنی زبان میں گھر گھر پہنچایا جا رہا ہے۔
پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان متعدد مقدمات میں اور مختلف الزامات کے تحت جیل میں ہیں اور ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف اپنی انتخابی مہم کے لیے روایتی طریقوں کے بجائے سوشل میڈیا اور مصنوعی ذہانت پر تکیہ کر رہی ہے۔
عمران خان کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا ایک خطاب دسمبر میں منظر عام پر آیا جب کہ وہ مئی سے لے کر اب تک جیل میں ہیں ۔یہ آڈیو اے آئی سے بنوائی گئی ہے جس کے آغاز میں چند الفاظ عمران خان کی پرانی ویڈیو سے لیے گئے ہیں جبکہ باقی کی آڈیو اے آئی سے بنوائی گئی ہے ۔ وہ لوگ جو عمران خان کے پیروکار ہیں انہوں نے اس چیز پر یقین بھی کرلیا کہ یہ عمران خان کا ہی خطاب ہے ۔
اسی طرح الیکشن ۲۰۲۴ میں اے آئی ڈس انفارمیشن کا ذریعہ بن رہا ہے
جو کہ انتخابات کے نتائج کو بہت متاثر کر رہاہے۔
وہ تمام ووٹرز جو حکومت سے تنگ آگئے ہیں اور جز باتی ہیں وہ ایسی معلومات پر بہت جلد یقین کر لیتے ہیں اور اگر انہیں یہ واضح بھی کر دیا جائے کہ یہ انفارمیشن جعلی ہے انہیں تب بھی فرق نہیں پڑھتا۔اسی طرح ۲۰۱۸ کے عام انتخابات میں بھی سیاسی اہداف حاصل کرنے کے لیے غلط ہیش ٹیگز کا اتنا استعمال کیا گیا کہ وہ ٹرینڈنگ پر چلے گئے ۔اس بارے میں پاکستانی میگزین دی ہیرالڈ میں بیان کیا گیا کہ کس طرح ۲۰۱۸ میں ہیش ٹیگز کے زریعے عدلیہ کو نشانہ بنایا گیا ۔اس سے پہلے بھی پاکستان میں مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن کی بہت سی مثالیں دیکھی جا چکی ہیں جیسے کے نسل پرستی اور عورتوں کی تصاویر کا غلط استعمال جو کہ اے آئی ایپس کے زریعے ممکن ہوا اور اس سے بہت خون خرابا بھی کیا گیا جس کے منظر سامنے آتے رہیں ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں دشمن ممالک نے پاکستان کے خلاف سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کیا ہے،اِس کی بہت بڑی مثال یورپ میں موجود ”ڈس انفو لیب“ کی رپورٹ ہے جس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ بھارت پندرہ سال سے پاکستان کے خلاف مختلف ویب سائٹس کے ذریعے لابنگ اور پراپیگنڈہ میں مصروف تھا۔اِس کے علاوہ اپریل 2021ء میں جب تحریک لبیک پاکستان کا احتجاج جاری تھا تو ٹویٹر پر بننے والا ٹرینڈ ”#سول وار اِن پاک“ بھارتی ٹوئٹر ہینڈلز نے بنایا تھا،اِس ٹرینڈ کو استعمال کرنے والی 84,000 ٹویٹس اور ریٹویٹس بھارتی فیک اکاونٹس سے کی گئی تھیں۔دس میں سے سات شہر جہاں یہ ”ٹاپ ٹرینڈ“ تھا ان کا تعلق بھی بھارت سے تھا۔ 2019ء میں پلوامہ حملے کے بعد جھوٹی تصویریں اور ویڈیوز بنا کر عام کی گئیں۔ابھی حال ہی میں جب ایران نے پاکستان میں میزائل داغے تو بھارت نے تنازعہ بڑھانے کی بھرپور کوشش کی، سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلوں پر بڑھا چڑھا کر معاملے کو پیش کیا۔اِس کے علاوہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو ملک سے باہر بیٹھ کر ہزاروں سوشل میڈیا اکاونٹس کے ذریعے پراپیگنڈہ مہم چلا رہے ہیں۔ملک کے اندر بھی ایسی کئی منظم حرکتیں کی جاتی ہیں۔پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ختم ہونے کے بعد پاک فوج کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا،لوگوں کو فوج کے خلاف اُکسایا گیا جس کا نتیجہ نو مئی کی صورت میں نکلا۔تاریخ میں ایسی مثال نہیں ملتی جب شہداء کی یادگاروں،آرمی تنصیبات اور کور کمانڈر کے گھر پر حملہ کیا گیا ہو۔عدلیہ بھی اِس شر سے محفوظ نہیں رہی، جب بھی کسی سیاسی جماعت کی منشا کے خلاف فیصلہ آیا، اس نے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کیا۔
گمراہ کن خبروں کا پاکستان میں پھیلنا آخر اتنا بڑا مسلۂ کیوں ہے ؟ اس کی وجہ صرف میڈیا لٹریسی کا نہ ہونا ہے ۔ اکثر ڈس انفارمیشن آن لائین پھیلتی ہے اس لیے لوگوں کو اس کا علم نہیں ہے کہ اس سے کس طرح نمٹا جائے ۔ماہرین کے مطابق اس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ نوجوان نسل روایتی میڈیا پر اعتماد رکھتی ہے ۔ان کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ یہ انفارمیشن حقیقت پر مبنی ہے یاں پھر اے آئی جینریٹڈ ہے ۔ ہمیں یقینی طور پر ان خطوط پر سوچنا شروع کرنا ہوگا اور اپنے ہاں سکول کی سطح پر میڈیا سے متعلق تعلیم زیادہ سے زیادہ ترویج کرنا ہوگی۔کیونکہ یہ وہ وقت ہوتا ہے خاص طور پر ہائی سکول کی سطح پر جب نوجوان زہن سیاسی شعور حاصل کر رہے اور دنیا کو سمجھ رہے ہوتے ہیں ۔