پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے تحریر: جہانگیر خان

_پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے_

بہت آسان ہوتا ہے اپنے گناہوں اور کوتاہیوں کو دوسروں کے گلے کا ہار بنانا، اپنی نااہلیوں پر حالات کے سازگار نہ ہونے کا پردہ ڈالنا، خود کو دودھ کا دھلا اور دوسروں کو کچرے کا ڈھیر کہنا، خود کو بے گناہ اور دوسروں کو گناہ گار ٹہھرانا، خود کو عالم اور دوسروں کو جاہل سمجھنا، خود کو معصوم اور دوسروں کو شاطر اور چالاک سمجھنا، خود کو حلالی اور دوسروں کو حرامی کہنا، خود کو جنتی اور دوسروں کو جہنمی کہنا، وغیرہ وغیرہ۔۔۔

  1. یہی حال آج کل ہمارا بھی ہے، اپنے ہر گناہ اور غلط فعل کو “پاکستان” کا نام جو دیا ہے۔ آپ نے ہزار مرتبہ یہ جملہ سنا ہوگا، “پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے”۔ اس کی تفصیل پر جانے سے پہلے میں آپ سے کچھ معصومانہ سوالات پوچھنا چاہتا ہوں، کیا پاکستان میدانوں اور عمارتوں کا نام ہے؟ کیا پاکستان چرند، پرند اور خزند کا نام ہے؟ کیا پاکستان دریاوں اور پہاڑوں کا نام ہے؟ کیا پاکستان حیوانات اور نباتات کا نام ہے؟ کیا پاکستان جنات کا نام ہے؟ اگر ان تمام سوالات کا جواب “ہاں” ہے تو پھر اوپر دئیے ہوئے جملے (پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے) پر کچھ خاص بات نہیں ہو سکتی اور اس پر ہم اپنا قیمتی وقت ضائع نہیں کر سکتے لیکن اگر ان سوالات کا جواب “نا” ہے تو پھر اس جملے پر لمبی بات ہو سکتی ہے اور کرنی بھی چاہیئے کیونکہ “نا” والے جواب سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر پاکستان اوپر بیان کی ہوئی چیزوں کا نام نہیں ہے تو پھر یقینا یہ “انسانوں” کا نام ہے۔ میرے نامکمل اور محدود علم کے مطابق ان سوالات کا جواب “نا” ہے، میرا مطلب یہ ہے کہ اس موضوع پر بات ہوسکتی ہے اور میں کرنا چاہتا ہوں۔

بات کچھ یوں ہے کہ پاکستان میں طرح طرح لاعلاج بیماریاں پھیل چکی ہیں جن میں بدعنوانی، سود خوری، رشوت ستانی، بدمعاشی، چوری، جھوٹ اور حق تلفی وغیرہ سر فہرست ہیں اور سب سے اہم یہ کہ ان تمام بیماریوں کا تعلق میدانوں، پہاڑوں، دریاوں، جانوروں، پرندوں اور پودوں سے نہیں ہے بلکہ ان کا تعلق اشرف المخلوقات (انسان) سے ہے۔

اب آتے ہیں تفصیل کی طرف جس کی اشد ضرورت ہے۔ چونکہ پاکستان “انسانوں” کا نام ہے اور اوپر دی گئی بیماریوں کا تعلق بھی انسانوں سے ہے اس لئے میں انسانوں کو ہی اپنا موضوع تحریر چن رہا ہوں۔
کوئی رشوت لے کر، دوسرے کا حق بیچ کر کہتا ہے پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے۔ کوئی رشوت دے کر، دوسرے کا حق چھین کر کہتا ہے پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے۔ کوئی جعلی ڈگری حاصل کرکے، ملک و قوم کا مستقبل داو پر لگا کر کہتا ہے پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے۔ کوئی دولت کی طاقت سے دوسروں کے کندھوں پر چڑھ کر، آگے جاکر کہتا ہے پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے۔ کوئی سفارش سے نوکری حاصل کرکے، مستحق لوگوں کا حق مار کر کہتا ہے پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے۔ کوئی ایک مرغی اور بریانی کی پلیٹ کے بل بوتے پر اپنا امتحان پاس کروا کر کہتا ہے پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے۔ کوئی دودھ میں پانی شامل کرکے، اسے بیچ کر کہتا ہے پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے۔ کوئی بکرے کی جگہ کتا ذبح کرکے، اسے بیچ کر کہتا ہے پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے۔ کوئی “ناٹ فار سیل” والی کتب بیچ کر کہتا ہے پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے۔

میں بذات خود کبھی کبھی یہ سوچ کر بہت پریشان ہو جاتا ہوں کہ یہ پاکستان آخر ہے کیا؟ کیا یہ کوئی بھوت بنگلہ ہے یا کوئی نادیدہ قوت ہے؟ نہیں بلکل نہیں! بلکہ پاکستان ہم خود ہیں۔ ہم انسانوں نے مل کر ایک ملک و قوم کی بنیاد رکھی ہے جس کا نام “پاکستان” ہے۔ اگر ہم سب اس خطہ ارض سے ہجرت کر جائیں یا کوئی آسمانی یا مصنوعی آفت ہمیں نیست و نابود کردے تو پھر یہ خطہ ارض پاکستان نہیں رہے گا بلکہ یہ علاقہ غیر بن جائے گا۔ ہم نہیں رہیں گے تو پاکستان بھی نہیں رہے گا۔ نام “پاکستان” ہم انسانوں میں تب تک زندہ ہے جب تک ہماری سانسیں چل رہی ہیں ورنہ اکیلے یہ کچھ بھی نہیں کیونکہ نام “پاکستان” کا مطلب ہے “پاک لوگوں کا وطن”۔ اس سے اگر آپ لفظ “لوگ” مٹاو گے تو یہ بے معنی ہو کر خود بھی مٹ جائے گا۔

اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم کب تک اپنی بے ایمانیوں، کوتاہیوں، غلطیوں اور گناہوں پر نام “پاکستان” کا پردہ ڈال کر خود کو بے گناہ اور معصوم ثابت کرتے رہیں گے۔ جملہ “پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے” میں لفظ “پاکستان” سے مراد پہاڑ، دریا، میدان اور عمارتیں نہیں ہیں کیونکہ یہ پہاڑ، دریا، میدان اور عمارتیں نہ تو رشوت لیتے ہیں، نہ رشوت دیتے ہیں، نا کسی کو دھوکہ دیتے ہیں، نا کسی کا حق مارتے ہیں اور نہ ہی کسی کو مار سکتے ہیں۔ بھئی! یہ کام تو ہمارے ہیں۔ رشوت بھی ہم لیتے اور دیتے ہیں، دھوکہ بھی ہم دیتے ہیں اور دوسرے کا حق بھی ہم ہی مارتے ہیں۔ اس لئے جملہ “پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے” میں لفظ “پاکستان” سے مراد ہم انسان ہیں۔

اب کوئی مجھے یہ بتائے کہ پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے یا ہمارے کھاتہ میں سب کچھ چلتا ہے؟ ہم کب تک نام “پاکستان” کے پیچھے چھپتے رہیں گے اور اس کلمہ کا ورد کرتے رہیں گے؟ بس! اب بہت ہو گیا۔ اب خود کو بدلنا ہے اور معاشرے کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے۔ لہذا آج سے مصمم ارادہ کریں کہ آئندہ میں کوئی بھی ناجائز کام نہیں کروں گا اور اگر کروں گا تو پھر یہ نہیں کہوں گا کہ پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے بلکہ یہ کہوں گا کہ میں اپنے مفاد کیلئے کسی بھی ناجائز حد تک گر سکتا ہوں، میں ایک بد فعل انسان ہوں اور میرا نام “پاکستان” ہے۔
یہ یاد رکھیئے، جس دن آپ نے اس کلمہ (پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے) کا ورد کرنا چھوڑ دیا، پھر دیکھنا معاشرہ کیسے بدلتا ہے اور کامیابی کیسے آپ کے قدم چھومتی ہے۔
تحریر: جہانگیر خان

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *