دیر، خیبرپختونخوا کے شمال میں واقع قدرت خوبصورتی سے مالامال ایک سرسبزوشاداب وادی ہیں۔ یہاں کے جنگلات، آسمان دکھائی دینے والا صاف دریا، ہر قسم کے پھلدار درخت اور سب سے بڑھ کر یہاں کے محنت کش لوگ یہاں کی خوبصورتی کو چار چاند لگاتے ہیں ۔
دیر میں آباد قوم زیادہ تر یوسفزئی پٹھان ہے جو پندرھویں صدی میں یہاں آباد ہوئے تھے۔ اس سے قبل دسویں صدی سے پندرھویں صدی کے درمیان یہاں پر کوہستانی کافروں کی حکومت رہی تھی اسی مناسبت سے ریاست دیر اس زمانے میں کافرستان کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ سلطنت کافرستان دیر کے زیریں علاقوں سے لیکر چترال میں کیلاش کی وادیوں تک پھیلی ہوئی تھی۔
پندرھویں صدی سے سترویں صدی کے وسط یہاں کے بزرگان دین اخون الیاس، اخون لاہور اور اخون سالاک کی تعلیمات کی بدولت بیشتر رعایا مشرف بہ اسلام ہو چکے تھے۔
ریاست دیر مختلف ادوار میں الگ تہذیبوں کے زیر اثر رہا اسی وجہ سے ریاست دیر کا نام ہر دور کی تہذیب کی مناسبت سے رکھا گیا۔ اس کے علاؤہ دیر کے جغرافیائی خدو خال بھی اس کی تسمیہ سے نمایاں نظر آتے ہیں۔
ماضی میں ریاست دیر مختلف ناموں سے جیسے سکندر اعظم کے دور کے مورخین نے اسے “گورائے” کے نام سے یاد کیا ہے۔سولہویں صدی میں بابر کے ساتھ آئے ہوئے مورخین نے اسے “یاغستان” اور “بلورستان”سے یاد کیا ہے۔
یونانیوں کی تاریخ کے مطابق جب سکندر اعظم نے 327 قبل مسیح یہاں پر حملہ کیا تو اس وقت دیر کا علاقہ مساگا سلطنت کا حصہ تھا، اس لیے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ دیر کا اصل اور سب سے قدیم نام “مساگا” تھا جو تین سو سال تک اسے نام سے یاد کیا جاتا رہا۔
دیر کی موجودہ نام کی وجہ تسمیہ یہاں کی تاریخ دانوں نے یہاں کی مشہور دریاء، دریائے پنجکوڑہ کے کنارے چوتھی صدی عیسوی میں بدھ مت کے سینکڑوں خانقاہوں سے منسوب کیا ہے۔ چونکہ “دیر” عربی زبان میں خانقاہ کو کہتے ہیں اور عربی زبان سے موافقت کی وجہ یہاں کی آباء و اجداد بقول مؤرخین تیسری صدی عیسویں جزیرۃالعرب سے آئے ہوئے تھے ۔
اس کے علاؤہ مورخین نے مختلف ادوار میں دیر یہاں کی پانچ دریاؤں کی مناسبت سے “پنجکوڑہ” کے نام سے بھی یاد کیا ہے۔
یہاں کی باشندوں کے بقول دیر 120 کلومیٹر لمبی وادی کے آخری سرے پر پہاڑوں کے درمیان واقع ہیں اسے وجہ سے اسکا نام دیر یعنی “بہت دور اور کافی#وقت لینے والا” رکھا گیا ہے۔
سترھویں صدی میں یوسفزئی پٹھانوں کی یہاں پر آباد ہونے کے بعد اس ریاست کا نام دیر رکھا گیا ہے جو کہ پہلے بار چوتھی صدی عیسوی میں بدھ مت کے عروج کے زمانے میں رکھا گیا تھا۔