آج کل خیبرپختونخوا(سابقہ صوبہ سرحد) کے باشندے ایک نہ ختم ہونے والے تذبذب اور نہ حل ہونے والے معمے کا شکار ہے اور وہ یہ ہے کہ کیا وہ افغان ہے بھی یا نہیں اور اگر افغان ہے تو پھر یہ سرزمین ریاست افغانستان کا حصہ کیوں نہیں ہے؟ کیا وہ پاکستان کا حصہ ہو کر اپنے اکثریت میں پائے جانے والے پشتونوں سے بزور شمشیر تو الگ نہیں کیے گئے ہیں؟
اس جیسے سوالات کے جوابات ڈھونڈنے کے لیے اکثریت تاریخ کے بجائے جزبات کی جانب رجوع کرتے ہیں اور پاکستان سے الگ ہوکر یا تو افغانستان کا حصہ بننے یا بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے پشتون آبادی والے علاقوں پر مشتمل ایک الگ ملک پختونستان بنانے کے حوالے سے اپنے سوچ کا زاویہ بناتے ہیں۔
اس میں ایک گروہ ان لوگوں کا بھی ہے جو خود کو کہتے تو محب وطن پاکستانی ہیں لیکن دوسری طرف نسلی ہم آہنگی رکھنے کی وجہ سے ایسے بیانات دیتے ہیں جس سے عام لوگوں کی پاکستان سے نفرت اور قوم پرستی اور نسل پرستی کی طرف کھینچنے کےجذبات مبذول ہوتے ہیں ۔
بطور صحافت کے طالب علم آج میں نے ضروری سمجھا کہ اپنے ملک کے باشندوں کے سامنے کچھ ایسے تاریخی شواہد سامنے لاؤ جس کو مد نظر رکھ کر ہر عقل و شعور رکھنے والا شخص جزبات کے بجائے ایسے سوالات کا جواب تاریخ کے آئینے کو مد نظر رکھ کر ڈھونڈے۔ یہ گویا وہ حقائق ہیں جو ابھی تک ریاستی سطح پر اکثر ریاستی معاملات کو نپٹنے والوں کی نظر سے بھی دور ہیں۔
اس کے علاؤہ اکثر پڑھے لکھے نوجوان پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا اور صوبہ بلوچستان کے پشتون آبادی والے علاقے کو مرٹمر ڈیورنڈ کی سو سالہ معاہدہ قرار دیکر 1993ء کے بعد یہ علاقہ اب ایک بار پھر افغانستان کا حصہ گردانتے ہیں۔
اس سوال کے جواب کے لیے معاہدے کی تمام کے تمام یعنی سات میں سے سات نکات پڑھتے ہوئے ہمیں ایک بھی ایسا نکتہ نہیں ملا جس میں سرحد کی سو سالہ حد بندی کا ذکر موجود ہوں یعنی یہ بھی بلا تحقیق اور اپنے طرف سے گھڑ لینے والا دعویٰ ثابت ہوتا ہے۔ البتہ اس معاہدے کے تحت امیر عبدالرحمان کی سالانہ 0.6 ملین روپے کی سبسڈی کو برطانوی ہند کی حکومت نے بڑھا کر بطور دوستی 1.2 ملین روپے مقرر کیا گیا تھا۔
تاریخی پس منظر کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں مختلف تاریخی کتابوں کا بغور مطالعہ کرنا چاہیے ۔سلیمان شاہد نے اپنے کتاب ریاست دیر پر لکھے گئے تاریخ “گمنام ریاست” میں زکر کیا ہے کہ جب افغانستان کے صوبہ اسمار کے گورنر شاہ تماس خان کے قتل ہونے کے بعد اس کا بھائی غلام خان جندول(جو موجودہ دیر کا حصہ ہے) آیا اور عمرا خان(جس کو انگریزوں نے افغان نپولین کا خطاب دیا تھا) کو اپنے بھتیجے عبد القدیر خان کے خلاف لشکر کشی کے لیے ابھارا تو عمرا خان نے عبد القدیر خان کو خط کے ذریعے اقتدار سے دستبرداری کی درخواست کی اور ساتھ حملے کی دھمکی بھی دی۔
جب عبد القدیر خان نے خط کا جواب نہ دیا تو عمرا خان نے پانچ سو سپاہیوں کا لشکر غلام خان کی قیادت میں روانہ کیا جس نے افغانستان کے حدود پار کر اسمار، مرواڑہ، ساؤ اور بریکوٹ تک علاقے قبضہ کیے۔
اس وقت کے افغانستان کے بادشاہ امیر عبدالرحمان نے خبر پاکر غلام خان پر جوابی لشکر کشی کے لیے افواج بھیجنے کا حکم دیا اور غلام خان سے اقتدار واپس چھین لینے کے علاؤہ جندول یعنی عمرا خان کی ریاست کا بھی کچھ حصہ قبضہ میں لے لیا۔
افغان لشکر کی واپسی پر عمرا خان نے قبائل کو ساتھ ملا کر اپنے علاقے امیر عبدالرحمان سےوپس چھڑا لیے۔ امیر عبدالرحمان یہ جان کر سخت برہم ہوئے عمرا خان پر ایک بار پھر شدید لشکر کشی کا حکم دیا لیکن اس کے جرنیل نے مشورہ دیا کہ اس بنجر علاقے کو قبضہ کرنے سے ہمیں کچھ نہیں ملے گا اور دوسری بات یہ کی عمرا خان پر حملہ برطانوی ہند کی حکومت اپنے اوپر حملہ تصور کرے گا۔
چنانچہ امیر عبدالرحمان نے انڈین حکومت سے عمرا خان کے حملے کی شکایت کردی۔ جس کے نتیجے میں 30 جون کو انڈین گورنمنٹ سیکرٹری جارج کننگھم نے وائسرائے ہند لارڈ رفن کی طرف سے عمرا خان کو ایک خط لکھا جس میں درج تھا کہ؛
You are asked to refrain yourself from such aggressions”.
یعنی تمہیں خبردار کیا جاتا ہے کہ اس قسم کی جارحیت سے باز رہو۔
عمرا خان نے دہلی کو وضاحت دی لیکن اس لڑائی سے برطانوی ہند اور ریاست جندول کی تعلقات متاثر ہوئے۔
یہاں پر اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ افغانستان پر عمرا خان کی مداخلت اور حملے ڈیورنڈ لائن کی پیش منظر ہیں۔کیونکہ اس حملوں سے پہلے افغانستان اور برطانوی ہند کے درمیان کوئی مستقل حد بندی لائن نہیں تھی لیکن ان جھڑپوں کے بعد انڈین گورنمنٹ نے اس طرف توجہ مبذول کی اور ہندوستان اور افغانستان کے درمیان کی مستقل سرحد بنانے کا ارادہ کیا۔
اسی طرح افغانستان کی طرف سے محمد عمر خان اور انگریزوں کی طرف سے مارٹمر ڈیورنڈ نے دونوں سلطنتوں کے درمیان 2640 کلومیٹر کی ایک مستقل حد بندی کے معاہدے پر افغانستان کے دارالحکومت کابل میں دستخط کیے۔
تاریخی حقائق کو مدنظر رکھ کر دونوں ممالک کے بااختار قوتوں کو اب اس سرحد کی مستقل حیثیت کو تسلیم کر لینا چاہیئے تاکہ دونوں اطراف غیر ریاستی عناصر تناؤ کا فائدہ نہ اٹھا سکے۔
حال ہی میں یہ سرحد افغانستان اور پاکستان کی سیکورٹی فورسز کے درمیان تناؤ کا مرکز رہا جس سے نہ صرف بے چینی بڑھی بلکہ عالمی قوتوں نے خوب تخریب کاری سے دونوں برادر اسلامی ممالک کے درمیان فاصلے بڑھانے میں اپنا حصہ ڈالا۔ اس جیسے مذید واقعات کی روک تھام کے لیے دونوں ممالک کے مقتدر حلقوں کے درمیان گفت و شنید کی اشد ضرورت ہے تاکہ یہ خطہ مزید عالمی گریٹ گیمز کا حصہ نہ بنے اور دونوں اطراف شہری پُرامن زندگی بسر کرسکے۔