وقت اللّه کی بڑی نعمت ہے ۔ایک ہی لمحہ انسان کا ماضی ،حال اور مستقبل بن جاتا ہے ۔ لیکن ماضی کے کچھ لمحات انسان کے ذہن میں ہمیشہ کے لیے پیوست ہو جاتے ہیں اورانسان نہ چاہتے ہوۓ بھی ان لمحات کو بھول نہیں پاتا۔اکتوبر 2018 کی بات ہے، کچھ عزیز دوستوں سے سیاسی گفتگو ہو رہی تھی۔ پی ٹی آئی حکومت کی ناکام کار کردگی اور ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی پر عزیز دوست وسیم نے تنقید کی اور کہا یہ سیاسی جماعت بھی باقی سیاسی جماعتوں کی طرح ٹھہری، اور اپنے موقفک “تبدیلی” کو ملک میں قائم کرتی ہوئی نظر نہیں آ رہی۔ وسیم نے میری راۓ پوچھی، حسنین بھائی آپ کے خیال میں کون سا سیاسی رہنما ملک کو معاشی مسائل سے نکال سکتا ہے ۔ لوگوں کےلیے روزگار کے مواقعے فراہم کر سکتا ہے۔ میں نے کہا؛ بھائی! کرم کرنے والی ذات تو اللّه کی ہے باقی انتظامی لحاظ سے ملک کے لیے نواز شریف بہتر ہیں۔ وسیم نے طنزیہ انداز میں کہا ، جناب ! وه عدالت کی طرف سے زندگی بھر کے لیے نا اہل قرار دیے جا چکے ہیں وه تو اب الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتے اور نہ ہی ملک کے وزیر اعظم بن سکتے ہیں ۔ کوئی اور لیڈر بتاؤ جو اس نظام کو بہتر کر سکے؟ خاکسار نے دھیمی آواز میں کہا جناب! یہ پاکستان ہے یہاں کی تاریخ پڑھو
“پاکستان میں کچھ بھی ہو سکتا ہے”
وقت نے رخ بدلا ، 2017 ء میں پاکستان کی بڑی عدالت (سپریم کورٹ ) نے جس نواز شریف کو نااہل قرار دیا ، 2023 میں وہی عدالت نے الزامات سے بری کر دیا اور نا اہلی ختم کرتے ہوئے آئندہ الیکشن لڑنے کی بھی اجازت دے دی۔ 5 فروری 2024ء کو بڑےقومی اخبارات میں ہیڈ لائن ہی “نواز شریف وزیر اعظم” کے طور پر چھپی۔ 1979ء میں احمد علی خاں قصوری قتل کیس میں ہائی کورٹ کے جسٹس مولوی مشتاق نے ذوالفقار علی بھٹو کو سزاۓ موت کا حکم دیا۔جبکہ 1978ء میں جسٹس اے-کے صمدانی کے پاس جب احمد خاں قتل کیس کی سنوائی ہوئی تو انہوں نے بھٹو صاحب کے حق میں فیصلہ کیا اور بری کرنے کا حکم دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے حق میں فیصلہ سنانے کے بعد جسٹس صمدانی صاحب کو عہدے سے ہی ہٹا دیا گیا ، لیکن 45 سال بعد 2024 میں جب سپریم کورٹ میں دوبارہ کیس لگا تو ملک کی بڑی عدالت نے(بھٹو) کی سزاے موت کے فیصلے کو غیر قانونی قرار دیا ۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ بھٹو کیس کا فیئر ٹرائل نہیں ہوا۔ 9 مئی 2023 کا دل سوز واقعہ ،جب قومی یادگاروں اور ملک کے اہم مقامات کو نقصان پہنچایا گیا ، توڑ پھوڑ کی گئی۔اس معاملے میں نہ صرف پی ٹی آئی جماعت اور اس کے کارکن پر الزام لگایا گیا بلکہ مخالف سیاسی جماعتوں نے تو پی ٹی آئی کو دہشت گرد،فسادی ،انتشار پسند ،شدت پسند پارٹی قرار دیا۔ لیکن 10 مئی کو جب پی ٹی آئی کے سربراہ( عمران خان ) عدالت میں پیش ہوے تو سابقہ چیف جسٹس( عمر عطاء بندیال ) نے سر بر اہ پی ٹی آئی کو دیکھ کر “nice to see you” کہا۔ 2024ء میں عوامی سروے کیا گیا کہ کونسا لیڈر عوام میں زیادہ مقبولیت رکھتا ہے۔
سروے کے نتا ئج کے بعد قومی اخبارات میں لیگی جماعت کے وزیر اعظم بننے کی بڑی سرخی چھپی ۔ لیکن 8 فروری کو پاکستان میں نئی تاریخ رقم ہوئی اور آزاد مبمران نے زیادہ ووٹ حاصل کئے ۔اور لیگی جماعت کے رہنما نواز شریف نے 9 فروری کو تقریر کرتے ہوئے کہا، ہمارے جماعت کے امید وار ہماری توقعات کے مطابق ووٹ حاصل نہیں کر سکے ۔لیکن قوم نے ایک نئے نظام کا مشاہدہ کیا کہ فارم 45 کی جگہ فارم 47 نے لے لی اور عوامی منیڈیٹ کی جیت کا فیصلہ فارم 47 کے نتائج کے مطابق ہوا۔ فروری
2024 میں سربراه پی ٹی آئی اور ان اہلیہ کو توشہ خانہ کیس میں 7 ،7 سال کی قید ہوئی لیکن 31 مارچ کو انہیں با عزت بری کرتے ہوئے جسٹس صاحب نے کہا کہ یہ کوئی کیس نہیں ہے۔ ایک اور بڑا دلچسپ واقعہ ہے کہ 23 مارچ کو ہونے والی ایوان صدر میں قومی تقریب پر ملک کی 397 نامور شخصیات کو سول اعزازات سے نوازا گیا۔ لیکن بہت سے جرنلسٹ نے اپنے کالم میں اس پر تنقید کی کہ ہم نے اتنے بڑے اعزاز کو كهلونا سا بنا ڈالا ۔۔۔
پانچ یا سات لوگوں سے زیادہ سول ایوارڈ دینا کیسے ممکن ہے۔۔ میرے ایک عزیز دوست واجد نے کہا، انڈیا کی 1 ارب 40 کروڑ آبادی میں سے صرف 132 لوگوں کو سول اعزازات دیا گیا۔جبکہ ہماری 26 کروڑ آبادی میں سے 397 لوگوں کو نوازا گیا۔ اگر ہماری قوم اتنی محنت پسند ہے تو پھر انڈیا کی ترقی کی پروان ہم سے بہتر کیوں ہے؟
میں نے چھ سال پرانا جملہ دہراتے ہو کہا کہ جناب !
“پاکستان میں کچھ بھی ہو سکتا ہے”
لیکن یہ سب ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے اگر ہم قوم اسی طرح فرسودگی کی حالت میں جیتے رہے تو تباہی و بربادی ہی ہمارا مقدر بنے گی ۔۔اس لیے قوم حقیقت جاننے کی کوشش کرے تا کہ ہم اس دلدل سے نکل سکیں اور کامیاب قوم بن سکیں ۔۔
اقبال کا مشہور شعر ہمیں شعوری کا درس دیتا ہے کہ :
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا