اک حسیں عہد تمام ہوا

یوں اِک عہد تمام ہوا۔ پنجاب یونیورسٹی کے چار سالہ بیچلرز کا تعلق تو اپنے اختتام کو پہنچ گیا لیکن پی- یو کے ساتھ استوار ہونے والے لاتعداد تعلقات بمشکل ہی اختتام پزیر ہو سکیں گے۔ آج سے چار سال قبل خدا جانے کتنی دعائیں مانگ مانگ کر پنجاب یونیورسٹی میں داخلہ لیا تھا وہ بھی اپنی پسند کے مضامین میں۔ اُس وقت زندگی کا پہیہ صرف اس بات کے گرد گھومتا تھا کہ اگر پنجاب یونیورسٹی میں میرٹ پر نام نہ آیا تو کیا ہوگا۔ لیکن جب داخلہ ہو گیا تو آہستہ آہستہ اِس شدت میں ٹھہراؤ آگیا۔ پہلے سوچا کہ لفظ “کمی” لکھا جائے لیکن کمی تو آج بھی نہیں آئی البتہ “ٹھہراؤ” ضرور آ گیا ہے۔ اور مجھے تو پنجاب یونیورسٹی پہلے سے بہت زیادہ اچھی لگنے لگی ہے۔ شاید یہ فطرتِ انسان ہے کہ جو کچھ بھی جس وقت میں اُس کے پاس میسر نہیں ہوتا، ہمیشہ وہی ہر دل عزیز معلوم ہوتا ہے اور باقی ساری نعمتیں ثانوی حیثیت اختیار کر لیتی ہیں۔ اصولاً یوں ہونا تو نہیں چاہیے لیکن اصول ہر جگہ لاگو بھی کہاں ہی ہوتے ہیں!

خیر۔۔۔اپنا تعلق سکول سے ہی ہمیشہ اُس کلاس سے رہا جس میں ہر استاد کسی نہ کسی موڑ پر یہ ضرور کہہ ڈالتے کہ “ہم نے آج تک ایسی کلاس کبھی نہ دیکھی! اتنے سال ہو گئے پڑھاتے ہوئے لیکن آپ لوگوں جیسے بچے تو ۔۔۔” باقی قاری کو خود اتنا سمجھدار ہونا چاہیے کہ جملہ مکمل کر سکیں۔
ویسے میرا تعلق کسی درجے میں اُن خوش قسمت بچوں میں سے بھی رہا ہے جن کو ہر طرح کا ماحول ملا۔ کالج میں پہلے سال کی پرنسپل نہایت سُست اور دوسرے سال کی نہایت چُست ملی۔ پہلے سال میں کبھی کالج کی شکل نہ دیکھی اور دوسرے سال میں اِسی عادت کے پیشے نظر اللہ کے حکم سے نام چھے مرتبہ خارج کیا گیا۔ اور یونیورسٹی میں بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہوا۔ پہلے دو سال نہایت پر سکون تھے۔ ڈیپارٹمنٹ میں ہر ایک سے سلام دعا ہوتی تھی۔ سب ایک دوسرے کو جانتے تھے۔ اور جس کسی سے بات چیت نہ بھی ہوتی تو کم از کم یہ ضرور پتہ ہوتا تھا کہ فلاں کون ہے اور کس سیشن سے تعلق رکھتا ہے۔ چہروں سے شناسائی تھی۔ ڈیپارٹمنٹ کے ایڈمن کا عملا نہایت خوش اسلوبی سے اپنی اپنی ذمہ داریاں سر انجام دیتے۔ ہر استاد کو تقریباً ہر بچے کا پتا ہوتا۔ سینیئرز اور جونیئرز کا بھی نہایت خوبصورت تعلق ہوتا تھا۔ اور سب سے بڑھ کر ڈیپارٹمنٹ میں سکون نامی شے کافی مقدار میں پائی جاتی تھی۔

پھر اِک روز کایا پلٹی۔ میں ریڈیو میں خبر نامہ بنا رہی تھی کہ اطلاع موصول ہوئی کہ ہماری ترقی انسٹیٹیوٹ سے سکول میں ہو گئی ہے۔ یعنی Institute of Communication Studies سے اب School of Communication Studies بن چکا ہے۔ سادہ زبان میں HEC کی جانب سے بچوں کو بھیڑ بکریوں کی مانند داخلہ دینے کی حق حلال طریقے سے اجازت مل چکی تھی۔ اُس وقت تو بہت سے مبارکبادوں کا سیشن چلا۔ ہر سیمینار میں اِس امر کی افادیت سمجھائی جاتی۔ پھر آہستہ آہستہ حقیقت سے پردا اُٹھا جب انسٹیٹیوٹ والے بچوں کے ساتھ سوتیلوں جیسا سلوک ہونے لگا۔ سب سے پہلے تو ڈیپارٹمنٹ کا سکون غارت ہوا۔ اس رنگ اور نسل کی مخلوق دیکھنے کو ملی جو پہلے بندے کو صرف خوابوں میں نظر آیا کرتی تھیں اور بندہ لاحول ولاقوۃ پڑھ کر تِربَک کر اُٹھ جایا کرتا تھا۔ انتظامیہ پر انکی عادتاً استعداد کے مطابق زیادہ بوجھ پڑا جس کے نتیجے میں ہر آئے روز کوئی نہ کوئی دن کے وقت چاند چڑھا ہوتا تھا۔ یہ سب باتیں تو ایک طرف، ایک دن حیرت کے سمندر میں ڈُبکی تب لگی جب سکول کے زیرِ اہتمام آنے والے ڈیپارٹمنٹس کے میرٹ کا پتا چلا کہ 67 فیصد والے بچوں کو بھی چوم چاٹ کر ایڈمیشن مل رہا ہے۔ اور مجھے یاد پڑتا ہے کہ میرا میرٹ 87 فیصد کے قریب تھا اور میرا داخلہ خدا جانے کتنی منتیں مرادیں اور چِلے کاٹنے کے بعد شام میں تیسری لسٹ کے آخر پر جا کر آیا تھا۔ لیکن تب ڈیپارٹمنٹ کا ایک معیار قائم تھا۔ امید کرسکتے ہیں ہے کہ آنے والے وقت میں پھر سے صورتحال بہتری کی جانب سفر باندھے۔

اس سب کے باوجود پنجاب یونیورسٹی کا کوئی نعمل بدل نہیں۔ کیمپس لائف، کھیت، گدھے گاڑیاں، پی سی ڈھابہ، جمعیت کے واقعات، لمبی والکس، پانی کے کھاڑے، ہاسٹل کی سڑکیں، مختصراً ہر لحاظ سے پنجاب یونیورسٹی کا محل وقوع کسی جنت سے کم نہیں۔ ویسے میرے بہت سے ساتھی اس بات سے شاید اتفاق نہیں کریں گے کیونکہ وہ ہمیشہ پی – یو کو کوستے آئے ہیں۔ میں مانتی ہوں کہ پی-یو میں بذات خود بہت سے نقائص بھی تھے۔ سب سے بڑھ کر تو یہ تھا کہ وہ کام جو ہمیں چار سالوں میں کرایا گیا وہ بندے کے پتروں کے طریقے سے آرام سے دو سالوں میں ہو سکتا تھا جس کی وجہ سے عمومی و اجتماعی رویہ سستی اور کاہلی کا پروان چڑھا۔ لیکن اس سب کے باوجود میرے پلڑے میں آج پی – یو کی اچھائیاں زیادہ ہیں اور برائیاں کم۔ یہاں آنے کے توسل سے بہت سے لوگوں سے تعلقات بنے۔ کچھ پختہ ہوئے اور کچھ کمزور پڑے۔ الغرض ذاتی و نجی زندگی میں پی-یو نے ہر لحاظ سے اپنی چھاپ چھوڑی۔ دعا گو ہیں کہ تعلیمی سفر کا اختتام اور عملی زندگی کا آغاز سب کے لیے خوشیوں کی دستک لے کر آئے!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *