The post اک حسیں عہد تمام ہوا appeared first on Public Sphare.
]]>خیر۔۔۔اپنا تعلق سکول سے ہی ہمیشہ اُس کلاس سے رہا جس میں ہر استاد کسی نہ کسی موڑ پر یہ ضرور کہہ ڈالتے کہ “ہم نے آج تک ایسی کلاس کبھی نہ دیکھی! اتنے سال ہو گئے پڑھاتے ہوئے لیکن آپ لوگوں جیسے بچے تو ۔۔۔” باقی قاری کو خود اتنا سمجھدار ہونا چاہیے کہ جملہ مکمل کر سکیں۔
ویسے میرا تعلق کسی درجے میں اُن خوش قسمت بچوں میں سے بھی رہا ہے جن کو ہر طرح کا ماحول ملا۔ کالج میں پہلے سال کی پرنسپل نہایت سُست اور دوسرے سال کی نہایت چُست ملی۔ پہلے سال میں کبھی کالج کی شکل نہ دیکھی اور دوسرے سال میں اِسی عادت کے پیشے نظر اللہ کے حکم سے نام چھے مرتبہ خارج کیا گیا۔ اور یونیورسٹی میں بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہوا۔ پہلے دو سال نہایت پر سکون تھے۔ ڈیپارٹمنٹ میں ہر ایک سے سلام دعا ہوتی تھی۔ سب ایک دوسرے کو جانتے تھے۔ اور جس کسی سے بات چیت نہ بھی ہوتی تو کم از کم یہ ضرور پتہ ہوتا تھا کہ فلاں کون ہے اور کس سیشن سے تعلق رکھتا ہے۔ چہروں سے شناسائی تھی۔ ڈیپارٹمنٹ کے ایڈمن کا عملا نہایت خوش اسلوبی سے اپنی اپنی ذمہ داریاں سر انجام دیتے۔ ہر استاد کو تقریباً ہر بچے کا پتا ہوتا۔ سینیئرز اور جونیئرز کا بھی نہایت خوبصورت تعلق ہوتا تھا۔ اور سب سے بڑھ کر ڈیپارٹمنٹ میں سکون نامی شے کافی مقدار میں پائی جاتی تھی۔
پھر اِک روز کایا پلٹی۔ میں ریڈیو میں خبر نامہ بنا رہی تھی کہ اطلاع موصول ہوئی کہ ہماری ترقی انسٹیٹیوٹ سے سکول میں ہو گئی ہے۔ یعنی Institute of Communication Studies سے اب School of Communication Studies بن چکا ہے۔ سادہ زبان میں HEC کی جانب سے بچوں کو بھیڑ بکریوں کی مانند داخلہ دینے کی حق حلال طریقے سے اجازت مل چکی تھی۔ اُس وقت تو بہت سے مبارکبادوں کا سیشن چلا۔ ہر سیمینار میں اِس امر کی افادیت سمجھائی جاتی۔ پھر آہستہ آہستہ حقیقت سے پردا اُٹھا جب انسٹیٹیوٹ والے بچوں کے ساتھ سوتیلوں جیسا سلوک ہونے لگا۔ سب سے پہلے تو ڈیپارٹمنٹ کا سکون غارت ہوا۔ اس رنگ اور نسل کی مخلوق دیکھنے کو ملی جو پہلے بندے کو صرف خوابوں میں نظر آیا کرتی تھیں اور بندہ لاحول ولاقوۃ پڑھ کر تِربَک کر اُٹھ جایا کرتا تھا۔ انتظامیہ پر انکی عادتاً استعداد کے مطابق زیادہ بوجھ پڑا جس کے نتیجے میں ہر آئے روز کوئی نہ کوئی دن کے وقت چاند چڑھا ہوتا تھا۔ یہ سب باتیں تو ایک طرف، ایک دن حیرت کے سمندر میں ڈُبکی تب لگی جب سکول کے زیرِ اہتمام آنے والے ڈیپارٹمنٹس کے میرٹ کا پتا چلا کہ 67 فیصد والے بچوں کو بھی چوم چاٹ کر ایڈمیشن مل رہا ہے۔ اور مجھے یاد پڑتا ہے کہ میرا میرٹ 87 فیصد کے قریب تھا اور میرا داخلہ خدا جانے کتنی منتیں مرادیں اور چِلے کاٹنے کے بعد شام میں تیسری لسٹ کے آخر پر جا کر آیا تھا۔ لیکن تب ڈیپارٹمنٹ کا ایک معیار قائم تھا۔ امید کرسکتے ہیں ہے کہ آنے والے وقت میں پھر سے صورتحال بہتری کی جانب سفر باندھے۔
اس سب کے باوجود پنجاب یونیورسٹی کا کوئی نعمل بدل نہیں۔ کیمپس لائف، کھیت، گدھے گاڑیاں، پی سی ڈھابہ، جمعیت کے واقعات، لمبی والکس، پانی کے کھاڑے، ہاسٹل کی سڑکیں، مختصراً ہر لحاظ سے پنجاب یونیورسٹی کا محل وقوع کسی جنت سے کم نہیں۔ ویسے میرے بہت سے ساتھی اس بات سے شاید اتفاق نہیں کریں گے کیونکہ وہ ہمیشہ پی – یو کو کوستے آئے ہیں۔ میں مانتی ہوں کہ پی-یو میں بذات خود بہت سے نقائص بھی تھے۔ سب سے بڑھ کر تو یہ تھا کہ وہ کام جو ہمیں چار سالوں میں کرایا گیا وہ بندے کے پتروں کے طریقے سے آرام سے دو سالوں میں ہو سکتا تھا جس کی وجہ سے عمومی و اجتماعی رویہ سستی اور کاہلی کا پروان چڑھا۔ لیکن اس سب کے باوجود میرے پلڑے میں آج پی – یو کی اچھائیاں زیادہ ہیں اور برائیاں کم۔ یہاں آنے کے توسل سے بہت سے لوگوں سے تعلقات بنے۔ کچھ پختہ ہوئے اور کچھ کمزور پڑے۔ الغرض ذاتی و نجی زندگی میں پی-یو نے ہر لحاظ سے اپنی چھاپ چھوڑی۔ دعا گو ہیں کہ تعلیمی سفر کا اختتام اور عملی زندگی کا آغاز سب کے لیے خوشیوں کی دستک لے کر آئے!
The post اک حسیں عہد تمام ہوا appeared first on Public Sphare.
]]>The post بدلتا ہے آسمان دنگ کیسے کیسے تحریر : حسنین علی appeared first on Public Sphare.
]]>The post بدلتا ہے آسمان دنگ کیسے کیسے تحریر : حسنین علی appeared first on Public Sphare.
]]>The post ڈیورنڈ لائن کے وہ حقائق جو تاریخ کا حصہ نہیں تحریر : واجد یوسفزئی appeared first on Public Sphare.
]]>اس جیسے سوالات کے جوابات ڈھونڈنے کے لیے اکثریت تاریخ کے بجائے جزبات کی جانب رجوع کرتے ہیں اور پاکستان سے الگ ہوکر یا تو افغانستان کا حصہ بننے یا بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے پشتون آبادی والے علاقوں پر مشتمل ایک الگ ملک پختونستان بنانے کے حوالے سے اپنے سوچ کا زاویہ بناتے ہیں۔
اس میں ایک گروہ ان لوگوں کا بھی ہے جو خود کو کہتے تو محب وطن پاکستانی ہیں لیکن دوسری طرف نسلی ہم آہنگی رکھنے کی وجہ سے ایسے بیانات دیتے ہیں جس سے عام لوگوں کی پاکستان سے نفرت اور قوم پرستی اور نسل پرستی کی طرف کھینچنے کےجذبات مبذول ہوتے ہیں ۔
بطور صحافت کے طالب علم آج میں نے ضروری سمجھا کہ اپنے ملک کے باشندوں کے سامنے کچھ ایسے تاریخی شواہد سامنے لاؤ جس کو مد نظر رکھ کر ہر عقل و شعور رکھنے والا شخص جزبات کے بجائے ایسے سوالات کا جواب تاریخ کے آئینے کو مد نظر رکھ کر ڈھونڈے۔ یہ گویا وہ حقائق ہیں جو ابھی تک ریاستی سطح پر اکثر ریاستی معاملات کو نپٹنے والوں کی نظر سے بھی دور ہیں۔
اس کے علاؤہ اکثر پڑھے لکھے نوجوان پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا اور صوبہ بلوچستان کے پشتون آبادی والے علاقے کو مرٹمر ڈیورنڈ کی سو سالہ معاہدہ قرار دیکر 1993ء کے بعد یہ علاقہ اب ایک بار پھر افغانستان کا حصہ گردانتے ہیں۔
اس سوال کے جواب کے لیے معاہدے کی تمام کے تمام یعنی سات میں سے سات نکات پڑھتے ہوئے ہمیں ایک بھی ایسا نکتہ نہیں ملا جس میں سرحد کی سو سالہ حد بندی کا ذکر موجود ہوں یعنی یہ بھی بلا تحقیق اور اپنے طرف سے گھڑ لینے والا دعویٰ ثابت ہوتا ہے۔ البتہ اس معاہدے کے تحت امیر عبدالرحمان کی سالانہ 0.6 ملین روپے کی سبسڈی کو برطانوی ہند کی حکومت نے بڑھا کر بطور دوستی 1.2 ملین روپے مقرر کیا گیا تھا۔
تاریخی پس منظر کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں مختلف تاریخی کتابوں کا بغور مطالعہ کرنا چاہیے ۔سلیمان شاہد نے اپنے کتاب ریاست دیر پر لکھے گئے تاریخ “گمنام ریاست” میں زکر کیا ہے کہ جب افغانستان کے صوبہ اسمار کے گورنر شاہ تماس خان کے قتل ہونے کے بعد اس کا بھائی غلام خان جندول(جو موجودہ دیر کا حصہ ہے) آیا اور عمرا خان(جس کو انگریزوں نے افغان نپولین کا خطاب دیا تھا) کو اپنے بھتیجے عبد القدیر خان کے خلاف لشکر کشی کے لیے ابھارا تو عمرا خان نے عبد القدیر خان کو خط کے ذریعے اقتدار سے دستبرداری کی درخواست کی اور ساتھ حملے کی دھمکی بھی دی۔
جب عبد القدیر خان نے خط کا جواب نہ دیا تو عمرا خان نے پانچ سو سپاہیوں کا لشکر غلام خان کی قیادت میں روانہ کیا جس نے افغانستان کے حدود پار کر اسمار، مرواڑہ، ساؤ اور بریکوٹ تک علاقے قبضہ کیے۔
اس وقت کے افغانستان کے بادشاہ امیر عبدالرحمان نے خبر پاکر غلام خان پر جوابی لشکر کشی کے لیے افواج بھیجنے کا حکم دیا اور غلام خان سے اقتدار واپس چھین لینے کے علاؤہ جندول یعنی عمرا خان کی ریاست کا بھی کچھ حصہ قبضہ میں لے لیا۔
افغان لشکر کی واپسی پر عمرا خان نے قبائل کو ساتھ ملا کر اپنے علاقے امیر عبدالرحمان سےوپس چھڑا لیے۔ امیر عبدالرحمان یہ جان کر سخت برہم ہوئے عمرا خان پر ایک بار پھر شدید لشکر کشی کا حکم دیا لیکن اس کے جرنیل نے مشورہ دیا کہ اس بنجر علاقے کو قبضہ کرنے سے ہمیں کچھ نہیں ملے گا اور دوسری بات یہ کی عمرا خان پر حملہ برطانوی ہند کی حکومت اپنے اوپر حملہ تصور کرے گا۔
چنانچہ امیر عبدالرحمان نے انڈین حکومت سے عمرا خان کے حملے کی شکایت کردی۔ جس کے نتیجے میں 30 جون کو انڈین گورنمنٹ سیکرٹری جارج کننگھم نے وائسرائے ہند لارڈ رفن کی طرف سے عمرا خان کو ایک خط لکھا جس میں درج تھا کہ؛
You are asked to refrain yourself from such aggressions”.
یعنی تمہیں خبردار کیا جاتا ہے کہ اس قسم کی جارحیت سے باز رہو۔
عمرا خان نے دہلی کو وضاحت دی لیکن اس لڑائی سے برطانوی ہند اور ریاست جندول کی تعلقات متاثر ہوئے۔
یہاں پر اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ افغانستان پر عمرا خان کی مداخلت اور حملے ڈیورنڈ لائن کی پیش منظر ہیں۔کیونکہ اس حملوں سے پہلے افغانستان اور برطانوی ہند کے درمیان کوئی مستقل حد بندی لائن نہیں تھی لیکن ان جھڑپوں کے بعد انڈین گورنمنٹ نے اس طرف توجہ مبذول کی اور ہندوستان اور افغانستان کے درمیان کی مستقل سرحد بنانے کا ارادہ کیا۔
اسی طرح افغانستان کی طرف سے محمد عمر خان اور انگریزوں کی طرف سے مارٹمر ڈیورنڈ نے دونوں سلطنتوں کے درمیان 2640 کلومیٹر کی ایک مستقل حد بندی کے معاہدے پر افغانستان کے دارالحکومت کابل میں دستخط کیے۔
تاریخی حقائق کو مدنظر رکھ کر دونوں ممالک کے بااختار قوتوں کو اب اس سرحد کی مستقل حیثیت کو تسلیم کر لینا چاہیئے تاکہ دونوں اطراف غیر ریاستی عناصر تناؤ کا فائدہ نہ اٹھا سکے۔
حال ہی میں یہ سرحد افغانستان اور پاکستان کی سیکورٹی فورسز کے درمیان تناؤ کا مرکز رہا جس سے نہ صرف بے چینی بڑھی بلکہ عالمی قوتوں نے خوب تخریب کاری سے دونوں برادر اسلامی ممالک کے درمیان فاصلے بڑھانے میں اپنا حصہ ڈالا۔ اس جیسے مذید واقعات کی روک تھام کے لیے دونوں ممالک کے مقتدر حلقوں کے درمیان گفت و شنید کی اشد ضرورت ہے تاکہ یہ خطہ مزید عالمی گریٹ گیمز کا حصہ نہ بنے اور دونوں اطراف شہری پُرامن زندگی بسر کرسکے۔
The post ڈیورنڈ لائن کے وہ حقائق جو تاریخ کا حصہ نہیں تحریر : واجد یوسفزئی appeared first on Public Sphare.
]]>The post مختلف ادوار کی مناسبت سے دیر کی تاریخ اور وجہ تسمیہ تحریر از: واجد یوسفزئی appeared first on Public Sphare.
]]>دیر میں آباد قوم زیادہ تر یوسفزئی پٹھان ہے جو پندرھویں صدی میں یہاں آباد ہوئے تھے۔ اس سے قبل دسویں صدی سے پندرھویں صدی کے درمیان یہاں پر کوہستانی کافروں کی حکومت رہی تھی اسی مناسبت سے ریاست دیر اس زمانے میں کافرستان کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ سلطنت کافرستان دیر کے زیریں علاقوں سے لیکر چترال میں کیلاش کی وادیوں تک پھیلی ہوئی تھی۔
پندرھویں صدی سے سترویں صدی کے وسط یہاں کے بزرگان دین اخون الیاس، اخون لاہور اور اخون سالاک کی تعلیمات کی بدولت بیشتر رعایا مشرف بہ اسلام ہو چکے تھے۔
ریاست دیر مختلف ادوار میں الگ تہذیبوں کے زیر اثر رہا اسی وجہ سے ریاست دیر کا نام ہر دور کی تہذیب کی مناسبت سے رکھا گیا۔ اس کے علاؤہ دیر کے جغرافیائی خدو خال بھی اس کی تسمیہ سے نمایاں نظر آتے ہیں۔
ماضی میں ریاست دیر مختلف ناموں سے جیسے سکندر اعظم کے دور کے مورخین نے اسے “گورائے” کے نام سے یاد کیا ہے۔سولہویں صدی میں بابر کے ساتھ آئے ہوئے مورخین نے اسے “یاغستان” اور “بلورستان”سے یاد کیا ہے۔
یونانیوں کی تاریخ کے مطابق جب سکندر اعظم نے 327 قبل مسیح یہاں پر حملہ کیا تو اس وقت دیر کا علاقہ مساگا سلطنت کا حصہ تھا، اس لیے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ دیر کا اصل اور سب سے قدیم نام “مساگا” تھا جو تین سو سال تک اسے نام سے یاد کیا جاتا رہا۔
دیر کی موجودہ نام کی وجہ تسمیہ یہاں کی تاریخ دانوں نے یہاں کی مشہور دریاء، دریائے پنجکوڑہ کے کنارے چوتھی صدی عیسوی میں بدھ مت کے سینکڑوں خانقاہوں سے منسوب کیا ہے۔ چونکہ “دیر” عربی زبان میں خانقاہ کو کہتے ہیں اور عربی زبان سے موافقت کی وجہ یہاں کی آباء و اجداد بقول مؤرخین تیسری صدی عیسویں جزیرۃالعرب سے آئے ہوئے تھے ۔
اس کے علاؤہ مورخین نے مختلف ادوار میں دیر یہاں کی پانچ دریاؤں کی مناسبت سے “پنجکوڑہ” کے نام سے بھی یاد کیا ہے۔
یہاں کی باشندوں کے بقول دیر 120 کلومیٹر لمبی وادی کے آخری سرے پر پہاڑوں کے درمیان واقع ہیں اسے وجہ سے اسکا نام دیر یعنی “بہت دور اور کافی#وقت لینے والا” رکھا گیا ہے۔
سترھویں صدی میں یوسفزئی پٹھانوں کی یہاں پر آباد ہونے کے بعد اس ریاست کا نام دیر رکھا گیا ہے جو کہ پہلے بار چوتھی صدی عیسوی میں بدھ مت کے عروج کے زمانے میں رکھا گیا تھا۔
The post مختلف ادوار کی مناسبت سے دیر کی تاریخ اور وجہ تسمیہ تحریر از: واجد یوسفزئی appeared first on Public Sphare.
]]>The post ڈیپ فیکس مواد کی شناخت کیسے کی جائے ؟ تحریر:عبید اللہ appeared first on Public Sphare.
]]>The post ڈیپ فیکس مواد کی شناخت کیسے کی جائے ؟ تحریر:عبید اللہ appeared first on Public Sphare.
]]>The post پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے تحریر: جہانگیر خان appeared first on Public Sphare.
]]>بہت آسان ہوتا ہے اپنے گناہوں اور کوتاہیوں کو دوسروں کے گلے کا ہار بنانا، اپنی نااہلیوں پر حالات کے سازگار نہ ہونے کا پردہ ڈالنا، خود کو دودھ کا دھلا اور دوسروں کو کچرے کا ڈھیر کہنا، خود کو بے گناہ اور دوسروں کو گناہ گار ٹہھرانا، خود کو عالم اور دوسروں کو جاہل سمجھنا، خود کو معصوم اور دوسروں کو شاطر اور چالاک سمجھنا، خود کو حلالی اور دوسروں کو حرامی کہنا، خود کو جنتی اور دوسروں کو جہنمی کہنا، وغیرہ وغیرہ۔۔۔
بات کچھ یوں ہے کہ پاکستان میں طرح طرح لاعلاج بیماریاں پھیل چکی ہیں جن میں بدعنوانی، سود خوری، رشوت ستانی، بدمعاشی، چوری، جھوٹ اور حق تلفی وغیرہ سر فہرست ہیں اور سب سے اہم یہ کہ ان تمام بیماریوں کا تعلق میدانوں، پہاڑوں، دریاوں، جانوروں، پرندوں اور پودوں سے نہیں ہے بلکہ ان کا تعلق اشرف المخلوقات (انسان) سے ہے۔
اب آتے ہیں تفصیل کی طرف جس کی اشد ضرورت ہے۔ چونکہ پاکستان “انسانوں” کا نام ہے اور اوپر دی گئی بیماریوں کا تعلق بھی انسانوں سے ہے اس لئے میں انسانوں کو ہی اپنا موضوع تحریر چن رہا ہوں۔
کوئی رشوت لے کر، دوسرے کا حق بیچ کر کہتا ہے پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے۔ کوئی رشوت دے کر، دوسرے کا حق چھین کر کہتا ہے پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے۔ کوئی جعلی ڈگری حاصل کرکے، ملک و قوم کا مستقبل داو پر لگا کر کہتا ہے پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے۔ کوئی دولت کی طاقت سے دوسروں کے کندھوں پر چڑھ کر، آگے جاکر کہتا ہے پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے۔ کوئی سفارش سے نوکری حاصل کرکے، مستحق لوگوں کا حق مار کر کہتا ہے پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے۔ کوئی ایک مرغی اور بریانی کی پلیٹ کے بل بوتے پر اپنا امتحان پاس کروا کر کہتا ہے پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے۔ کوئی دودھ میں پانی شامل کرکے، اسے بیچ کر کہتا ہے پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے۔ کوئی بکرے کی جگہ کتا ذبح کرکے، اسے بیچ کر کہتا ہے پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے۔ کوئی “ناٹ فار سیل” والی کتب بیچ کر کہتا ہے پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے۔
میں بذات خود کبھی کبھی یہ سوچ کر بہت پریشان ہو جاتا ہوں کہ یہ پاکستان آخر ہے کیا؟ کیا یہ کوئی بھوت بنگلہ ہے یا کوئی نادیدہ قوت ہے؟ نہیں بلکل نہیں! بلکہ پاکستان ہم خود ہیں۔ ہم انسانوں نے مل کر ایک ملک و قوم کی بنیاد رکھی ہے جس کا نام “پاکستان” ہے۔ اگر ہم سب اس خطہ ارض سے ہجرت کر جائیں یا کوئی آسمانی یا مصنوعی آفت ہمیں نیست و نابود کردے تو پھر یہ خطہ ارض پاکستان نہیں رہے گا بلکہ یہ علاقہ غیر بن جائے گا۔ ہم نہیں رہیں گے تو پاکستان بھی نہیں رہے گا۔ نام “پاکستان” ہم انسانوں میں تب تک زندہ ہے جب تک ہماری سانسیں چل رہی ہیں ورنہ اکیلے یہ کچھ بھی نہیں کیونکہ نام “پاکستان” کا مطلب ہے “پاک لوگوں کا وطن”۔ اس سے اگر آپ لفظ “لوگ” مٹاو گے تو یہ بے معنی ہو کر خود بھی مٹ جائے گا۔
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم کب تک اپنی بے ایمانیوں، کوتاہیوں، غلطیوں اور گناہوں پر نام “پاکستان” کا پردہ ڈال کر خود کو بے گناہ اور معصوم ثابت کرتے رہیں گے۔ جملہ “پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے” میں لفظ “پاکستان” سے مراد پہاڑ، دریا، میدان اور عمارتیں نہیں ہیں کیونکہ یہ پہاڑ، دریا، میدان اور عمارتیں نہ تو رشوت لیتے ہیں، نہ رشوت دیتے ہیں، نا کسی کو دھوکہ دیتے ہیں، نا کسی کا حق مارتے ہیں اور نہ ہی کسی کو مار سکتے ہیں۔ بھئی! یہ کام تو ہمارے ہیں۔ رشوت بھی ہم لیتے اور دیتے ہیں، دھوکہ بھی ہم دیتے ہیں اور دوسرے کا حق بھی ہم ہی مارتے ہیں۔ اس لئے جملہ “پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے” میں لفظ “پاکستان” سے مراد ہم انسان ہیں۔
اب کوئی مجھے یہ بتائے کہ پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے یا ہمارے کھاتہ میں سب کچھ چلتا ہے؟ ہم کب تک نام “پاکستان” کے پیچھے چھپتے رہیں گے اور اس کلمہ کا ورد کرتے رہیں گے؟ بس! اب بہت ہو گیا۔ اب خود کو بدلنا ہے اور معاشرے کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے۔ لہذا آج سے مصمم ارادہ کریں کہ آئندہ میں کوئی بھی ناجائز کام نہیں کروں گا اور اگر کروں گا تو پھر یہ نہیں کہوں گا کہ پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے بلکہ یہ کہوں گا کہ میں اپنے مفاد کیلئے کسی بھی ناجائز حد تک گر سکتا ہوں، میں ایک بد فعل انسان ہوں اور میرا نام “پاکستان” ہے۔
یہ یاد رکھیئے، جس دن آپ نے اس کلمہ (پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے) کا ورد کرنا چھوڑ دیا، پھر دیکھنا معاشرہ کیسے بدلتا ہے اور کامیابی کیسے آپ کے قدم چھومتی ہے۔
تحریر: جہانگیر خان
The post پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے تحریر: جہانگیر خان appeared first on Public Sphare.
]]>The post فیک نیوز کا بڑھتا ہوا رجحان تحریر: نازش قریشی appeared first on Public Sphare.
]]>پاکستان میں، جہاں پی ٹی آئی کے چئیرمین عمران خان کا میڈیا میں نام تک لینے پر بھی پابندی رہی ہے وہاں اے آئی کی مدد سے جیل میں قید سابق وزیر اعظم کا پیغام ان کی اپنی زبان میں گھر گھر پہنچایا جا رہا ہے۔
پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان متعدد مقدمات میں اور مختلف الزامات کے تحت جیل میں ہیں اور ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف اپنی انتخابی مہم کے لیے روایتی طریقوں کے بجائے سوشل میڈیا اور مصنوعی ذہانت پر تکیہ کر رہی ہے۔
عمران خان کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا ایک خطاب دسمبر میں منظر عام پر آیا جب کہ وہ مئی سے لے کر اب تک جیل میں ہیں ۔یہ آڈیو اے آئی سے بنوائی گئی ہے جس کے آغاز میں چند الفاظ عمران خان کی پرانی ویڈیو سے لیے گئے ہیں جبکہ باقی کی آڈیو اے آئی سے بنوائی گئی ہے ۔ وہ لوگ جو عمران خان کے پیروکار ہیں انہوں نے اس چیز پر یقین بھی کرلیا کہ یہ عمران خان کا ہی خطاب ہے ۔
اسی طرح الیکشن ۲۰۲۴ میں اے آئی ڈس انفارمیشن کا ذریعہ بن رہا ہے
جو کہ انتخابات کے نتائج کو بہت متاثر کر رہاہے۔
وہ تمام ووٹرز جو حکومت سے تنگ آگئے ہیں اور جز باتی ہیں وہ ایسی معلومات پر بہت جلد یقین کر لیتے ہیں اور اگر انہیں یہ واضح بھی کر دیا جائے کہ یہ انفارمیشن جعلی ہے انہیں تب بھی فرق نہیں پڑھتا۔اسی طرح ۲۰۱۸ کے عام انتخابات میں بھی سیاسی اہداف حاصل کرنے کے لیے غلط ہیش ٹیگز کا اتنا استعمال کیا گیا کہ وہ ٹرینڈنگ پر چلے گئے ۔اس بارے میں پاکستانی میگزین دی ہیرالڈ میں بیان کیا گیا کہ کس طرح ۲۰۱۸ میں ہیش ٹیگز کے زریعے عدلیہ کو نشانہ بنایا گیا ۔اس سے پہلے بھی پاکستان میں مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن کی بہت سی مثالیں دیکھی جا چکی ہیں جیسے کے نسل پرستی اور عورتوں کی تصاویر کا غلط استعمال جو کہ اے آئی ایپس کے زریعے ممکن ہوا اور اس سے بہت خون خرابا بھی کیا گیا جس کے منظر سامنے آتے رہیں ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں دشمن ممالک نے پاکستان کے خلاف سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کیا ہے،اِس کی بہت بڑی مثال یورپ میں موجود ”ڈس انفو لیب“ کی رپورٹ ہے جس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ بھارت پندرہ سال سے پاکستان کے خلاف مختلف ویب سائٹس کے ذریعے لابنگ اور پراپیگنڈہ میں مصروف تھا۔اِس کے علاوہ اپریل 2021ء میں جب تحریک لبیک پاکستان کا احتجاج جاری تھا تو ٹویٹر پر بننے والا ٹرینڈ ”#سول وار اِن پاک“ بھارتی ٹوئٹر ہینڈلز نے بنایا تھا،اِس ٹرینڈ کو استعمال کرنے والی 84,000 ٹویٹس اور ریٹویٹس بھارتی فیک اکاونٹس سے کی گئی تھیں۔دس میں سے سات شہر جہاں یہ ”ٹاپ ٹرینڈ“ تھا ان کا تعلق بھی بھارت سے تھا۔ 2019ء میں پلوامہ حملے کے بعد جھوٹی تصویریں اور ویڈیوز بنا کر عام کی گئیں۔ابھی حال ہی میں جب ایران نے پاکستان میں میزائل داغے تو بھارت نے تنازعہ بڑھانے کی بھرپور کوشش کی، سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلوں پر بڑھا چڑھا کر معاملے کو پیش کیا۔اِس کے علاوہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو ملک سے باہر بیٹھ کر ہزاروں سوشل میڈیا اکاونٹس کے ذریعے پراپیگنڈہ مہم چلا رہے ہیں۔ملک کے اندر بھی ایسی کئی منظم حرکتیں کی جاتی ہیں۔پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ختم ہونے کے بعد پاک فوج کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا،لوگوں کو فوج کے خلاف اُکسایا گیا جس کا نتیجہ نو مئی کی صورت میں نکلا۔تاریخ میں ایسی مثال نہیں ملتی جب شہداء کی یادگاروں،آرمی تنصیبات اور کور کمانڈر کے گھر پر حملہ کیا گیا ہو۔عدلیہ بھی اِس شر سے محفوظ نہیں رہی، جب بھی کسی سیاسی جماعت کی منشا کے خلاف فیصلہ آیا، اس نے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کیا۔
گمراہ کن خبروں کا پاکستان میں پھیلنا آخر اتنا بڑا مسلۂ کیوں ہے ؟ اس کی وجہ صرف میڈیا لٹریسی کا نہ ہونا ہے ۔ اکثر ڈس انفارمیشن آن لائین پھیلتی ہے اس لیے لوگوں کو اس کا علم نہیں ہے کہ اس سے کس طرح نمٹا جائے ۔ماہرین کے مطابق اس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ نوجوان نسل روایتی میڈیا پر اعتماد رکھتی ہے ۔ان کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ یہ انفارمیشن حقیقت پر مبنی ہے یاں پھر اے آئی جینریٹڈ ہے ۔ ہمیں یقینی طور پر ان خطوط پر سوچنا شروع کرنا ہوگا اور اپنے ہاں سکول کی سطح پر میڈیا سے متعلق تعلیم زیادہ سے زیادہ ترویج کرنا ہوگی۔کیونکہ یہ وہ وقت ہوتا ہے خاص طور پر ہائی سکول کی سطح پر جب نوجوان زہن سیاسی شعور حاصل کر رہے اور دنیا کو سمجھ رہے ہوتے ہیں ۔
The post فیک نیوز کا بڑھتا ہوا رجحان تحریر: نازش قریشی appeared first on Public Sphare.
]]>The post دادا کی پوتی تحریر:محمد سلیمان appeared first on Public Sphare.
]]>
The post دادا کی پوتی تحریر:محمد سلیمان appeared first on Public Sphare.
]]>The post انبیاء اور مسلم سائنسدانوں کو مشرق اور مغرب میں مختلف ناموں سے کیوں یاد کیا جاتا ہے؟ تحریر: فرح جی appeared first on Public Sphare.
]]>مگر سوال یہ ہے کہ آخر ایک ہی شخص کے لیے دو مختلف نام کیوں؟
دراصل اس کی مختلف وجوہات ہیں۔انبیاء کے ناموں کے حوالے سے اہل مغرب کا دعوی ہے کہ یونانی نام ہی اصلی نام ہیں اور عربی نام یونانی ناموں سے اخذ کیے گئے ہیں۔ اس کے برعکس مسلمانوں کے مطابق عربی نام ہی حقیقی ہیں۔ علاوہ ازیں عربی زبان یونانی زبان سے زیادہ قدیم ہے۔اگر بات مسلم سائنس دانوں کے مختلف ناموں کی کی جائے تو صورت حال مختلف ہے۔ دراصل ان تمام سائنس دانوں کا تعلق سنہرے اسلام دور سے تھا جب مسلمان علم کے میدان میں ترقی کی نئی نئی منازل طے کر رہے تھے۔ قرون وسطی میں مشرق اور مغرب کے درمیان تجارت سے ثقافتی تعلقات اور علمی فروغ میں تیزی آئی۔ لہذا اہل مغرب نے مسلم سائنس دانوں کے ناموں کی لاطینی سازی کی۔ آغاز میں اس کا مقصد مخص لسانی مطابقت اور ثقافتی ہم آہنگی پیدا کرنا تھا اور مغربی ادبی روایات کے ڈھانچے میں ڈھالنا تھا مگر اس کے باعث کئی منفی اثرات پیدا ہوئے۔ جن میں مسلمانوں کی ثقافتی شناخت مسخ ہوئی ان کی علمی کاوشوں کا استحصال کیا گیا اور یورپ مرکزیت کے تعصب نے جنم لیا۔
ناموں کی لاطینی سازی کے باعث بہت سی غلط فہمیاں بھی پھیلی۔ کچھ مغربی لکھاری اور تاریخ دان مثلاً Will Durantاور Sarton نے یہ دعوی بھی کیا کہ ان مسلم سائنسدانوں کا تعلق مغرب سے ہے۔ دورِ حاضر میں حقیقی ناموں کے استمعال پر اصرار کیا جاتا ہے تاکہ اس قوم کی علمی اور ادبی کاوشوں کو صحیح معنوں میں سراہا جاسکے۔
The post انبیاء اور مسلم سائنسدانوں کو مشرق اور مغرب میں مختلف ناموں سے کیوں یاد کیا جاتا ہے؟ تحریر: فرح جی appeared first on Public Sphare.
]]>The post لاہور کی سوسائٹی جہاں پلاٹ 4100 سو روپے کا تھا۔ تحریر:محمد عبیداللہ appeared first on Public Sphare.
]]>
خرید نہیں سکتا تھا۔اگر موجودہ دور کی بات کریں تو یہ اکتالیس سو روپے کا پلاٹ اب چار کروڑ روپے کی مالیت سے بھی تجاوز کر گیا ہے۔دورحاضر کی بات کریں تو نشتر کالونی کی آبادی ایک لاکھ دس ہزار کے قریب ہے ۔اس کا رقبہ ایک سو سینتالیس ایکڑ (147 ایکڑ)ہے جو کہ 4500 تین تین مرلہ کے پلاٹوں میں تقسیم ہے۔یہاں کل ووٹوں کی تعداد بائیس سے تئیس ہزار (22000-23000)کے درمیان ہے
اس کے بنیادی ڈھانچے کی طرف نظر دوڑائی جائے تو اس میں آٹھ چھوٹے بڑے پارک ہیں۔ایک گورنمنٹ پرائمری سکول ہے جبکہ تین سوشل ویلفیئر اسکول ہیں۔ان میں ایک پرائمری سکول ہے جبکہ دو طلباء وطالبات کے لیے علیحدہ علیحدہ ہائر سیکنڈری اسکول ہیں۔اگر نجی اسکولوں کی طرف نگاہ دوڑائیں تو تقریباً بیس کے قریب اسکول ہیں۔دو نجی کالج اور ایک یونیورسٹی بھی ہے۔ یونیورسٹی کا نام “ایفرو ایشین انسٹی ٹیوٹ” ہے جو کہ جی سی فیصل آباد کے ساتھ منسلک ہے۔دو سرکاری ڈسپینسریز اور دس کے قریب نجی ہسپتال موجود ہیں ۔ایک پولیس تھانہ ہے جو کہ نشتر تھانہ کے نام سے مقبول ہے ۔اگر ہم مذہبی نقطۂ نظر سے دیکھیں تو یہاں دس سے پندرہ مساجد ہیں جن میں سے چند کے ساتھ مدرسے بھی منسلک ہیں۔تین قبرستان ہیں۔
علاقہ بھر میں نشتر کالونی کی فوڈ اسٹریٹ ایک خاص درجہ رکھتی ہے ۔کراچی بریانی اور الفضل کی ڈیری پروڈکٹس قابلِ ذکر ہیں ۔تاریخی اعتبار سے یہ علاقہ بہت اہمیت کا حامل ہے ۔نوجوان نسل کو چاہیے کہ اس طرح کے تاریخی علاقہ جات کا مطالعہ کریں ۔امید ہے کہ اس چھوٹی سی کاوش سے تمام قارئین لطف اندوز ہوسکے گے۔و
The post لاہور کی سوسائٹی جہاں پلاٹ 4100 سو روپے کا تھا۔ تحریر:محمد عبیداللہ appeared first on Public Sphare.
]]>