History & Facts Archives - Public Sphare http://publicsphare.com/category/history-facts/ The all in One Mon, 08 Apr 2024 05:02:00 +0000 en-US hourly 1 https://wordpress.org/?v=6.5.4 230858675 بدلتا ہے آسمان دنگ کیسے کیسے تحریر : حسنین علی http://publicsphare.com/2024/04/08/%d8%a8%d8%af%d9%84%d8%aa%d8%a7-%db%81%db%92-%d8%a2%d8%b3%d9%85%d8%a7%d9%86-%d8%af%d9%86%da%af-%da%a9%db%8c%d8%b3%db%92-%da%a9%db%8c%d8%b3%db%92-%d8%aa%d8%ad%d8%b1%db%8c%d8%b1-%d8%ad/ http://publicsphare.com/2024/04/08/%d8%a8%d8%af%d9%84%d8%aa%d8%a7-%db%81%db%92-%d8%a2%d8%b3%d9%85%d8%a7%d9%86-%d8%af%d9%86%da%af-%da%a9%db%8c%d8%b3%db%92-%da%a9%db%8c%d8%b3%db%92-%d8%aa%d8%ad%d8%b1%db%8c%d8%b1-%d8%ad/#respond Mon, 08 Apr 2024 04:55:44 +0000 http://publicsphare.com/?p=1088 وقت اللّه کی بڑی نعمت ہے ۔ایک ہی لمحہ انسان کا ماضی ،حال اور مستقبل […]

The post بدلتا ہے آسمان دنگ کیسے کیسے تحریر : حسنین علی appeared first on Public Sphare.

]]>
وقت اللّه کی بڑی نعمت ہے ۔ایک ہی لمحہ انسان کا ماضی ،حال اور مستقبل بن جاتا ہے ۔ لیکن ماضی کے کچھ لمحات انسان کے ذہن میں ہمیشہ کے لیے پیوست ہو جاتے ہیں اورانسان نہ چاہتے ہوۓ بھی ان لمحات کو بھول نہیں پاتا۔اکتوبر 2018 کی بات ہے، کچھ عزیز دوستوں سے سیاسی گفتگو ہو رہی تھی۔ پی ٹی آئی حکومت کی ناکام کار کردگی اور ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی پر عزیز دوست وسیم نے تنقید کی اور کہا یہ سیاسی جماعت بھی باقی سیاسی جماعتوں کی طرح ٹھہری، اور اپنے موقفک “تبدیلی” کو ملک میں قائم کرتی ہوئی نظر نہیں آ رہی۔ وسیم نے میری راۓ پوچھی، حسنین بھائی آپ کے خیال میں کون سا سیاسی رہنما ملک کو معاشی مسائل سے نکال سکتا ہے ۔ لوگوں کےلیے روزگار کے مواقعے فراہم کر سکتا ہے۔ میں نے کہا؛ بھائی! کرم کرنے والی ذات تو اللّه کی ہے باقی انتظامی لحاظ سے ملک کے لیے نواز شریف بہتر ہیں۔ وسیم نے طنزیہ انداز میں کہا ، جناب ! وه عدالت کی طرف سے زندگی بھر کے لیے نا اہل قرار دیے جا چکے ہیں وه تو اب الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتے اور نہ ہی ملک کے وزیر اعظم بن سکتے ہیں ۔ کوئی اور لیڈر بتاؤ جو اس نظام کو بہتر کر سکے؟ خاکسار نے دھیمی آواز میں کہا جناب! یہ پاکستان ہے یہاں کی تاریخ پڑھو
“پاکستان میں کچھ بھی ہو سکتا ہے”
وقت نے رخ بدلا ، 2017 ء میں پاکستان کی بڑی عدالت (سپریم کورٹ ) نے جس نواز شریف کو نااہل قرار دیا ، 2023 میں وہی عدالت نے الزامات سے بری کر دیا اور نا اہلی ختم کرتے ہوئے آئندہ الیکشن لڑنے کی بھی اجازت دے دی۔ 5 فروری 2024ء کو بڑےقومی اخبارات میں ہیڈ لائن ہی “نواز شریف وزیر اعظم” کے طور پر چھپی۔ 1979ء میں احمد علی خاں قصوری قتل کیس میں ہائی کورٹ کے جسٹس مولوی مشتاق نے ذوالفقار علی بھٹو کو سزاۓ موت کا حکم دیا۔جبکہ 1978ء میں جسٹس اے-کے صمدانی کے پاس جب احمد خاں قتل کیس کی سنوائی ہوئی تو انہوں نے بھٹو صاحب کے حق میں فیصلہ کیا اور بری کرنے کا حکم دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے حق میں فیصلہ سنانے کے بعد جسٹس صمدانی صاحب کو عہدے سے ہی ہٹا دیا گیا ، لیکن 45 سال بعد 2024 میں جب سپریم کورٹ میں دوبارہ کیس لگا تو ملک کی بڑی عدالت نے(بھٹو) کی سزاے موت کے فیصلے کو غیر قانونی قرار دیا ۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ بھٹو کیس کا فیئر ٹرائل نہیں ہوا۔ 9 مئی 2023 کا دل سوز واقعہ ،جب قومی یادگاروں اور ملک کے اہم مقامات کو نقصان پہنچایا گیا ، توڑ پھوڑ کی گئی۔اس معاملے میں نہ صرف پی ٹی آئی جماعت اور اس کے کارکن پر الزام لگایا گیا بلکہ مخالف سیاسی جماعتوں نے تو پی ٹی آئی کو دہشت گرد،فسادی ،انتشار پسند ،شدت پسند پارٹی قرار دیا۔ لیکن 10 مئی کو جب پی ٹی آئی کے سربراہ( عمران خان ) عدالت میں پیش ہوے تو سابقہ چیف جسٹس( عمر عطاء بندیال ) نے سر بر اہ پی ٹی آئی کو دیکھ کر “nice to see you” کہا۔ 2024ء میں عوامی سروے کیا گیا کہ کونسا لیڈر عوام میں زیادہ مقبولیت رکھتا ہے۔
سروے کے نتا ئج کے بعد قومی اخبارات میں لیگی جماعت کے وزیر اعظم بننے کی بڑی سرخی چھپی ۔ لیکن 8 فروری کو پاکستان میں نئی تاریخ رقم ہوئی اور آزاد مبمران نے زیادہ ووٹ حاصل کئے ۔اور لیگی جماعت کے رہنما نواز شریف نے 9 فروری کو تقریر کرتے ہوئے کہا، ہمارے جماعت کے امید وار ہماری توقعات کے مطابق ووٹ حاصل نہیں کر سکے ۔لیکن قوم نے ایک نئے نظام کا مشاہدہ کیا کہ فارم 45 کی جگہ فارم 47 نے لے لی اور عوامی منیڈیٹ کی جیت کا فیصلہ فارم 47 کے نتائج کے مطابق ہوا۔ فروری
2024 میں سربراه پی ٹی آئی اور ان اہلیہ کو توشہ خانہ کیس میں 7 ،7 سال کی قید ہوئی لیکن 31 مارچ کو انہیں با عزت بری کرتے ہوئے جسٹس صاحب نے کہا کہ یہ کوئی کیس نہیں ہے۔ ایک اور بڑا دلچسپ واقعہ ہے کہ 23 مارچ کو ہونے والی ایوان صدر میں قومی تقریب پر ملک کی 397 نامور شخصیات کو سول اعزازات سے نوازا گیا۔ لیکن بہت سے جرنلسٹ نے اپنے کالم میں اس پر تنقید کی کہ ہم نے اتنے بڑے اعزاز کو كهلونا سا بنا ڈالا ۔۔۔
پانچ یا سات لوگوں سے زیادہ سول ایوارڈ دینا کیسے ممکن ہے۔۔ میرے ایک عزیز دوست واجد نے کہا، انڈیا کی 1 ارب 40 کروڑ آبادی میں سے صرف 132 لوگوں کو سول اعزازات دیا گیا۔جبکہ ہماری 26 کروڑ آبادی میں سے 397 لوگوں کو نوازا گیا۔ اگر ہماری قوم اتنی محنت پسند ہے تو پھر انڈیا کی ترقی کی پروان ہم سے بہتر کیوں ہے؟
میں نے چھ سال پرانا جملہ دہراتے ہو کہا کہ جناب !
“پاکستان میں کچھ بھی ہو سکتا ہے”
لیکن یہ سب ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے اگر ہم قوم اسی طرح فرسودگی کی حالت میں جیتے رہے تو تباہی و بربادی ہی ہمارا مقدر بنے گی ۔۔اس لیے قوم حقیقت جاننے کی کوشش کرے تا کہ ہم اس دلدل سے نکل سکیں اور کامیاب قوم بن سکیں ۔۔
اقبال کا مشہور شعر ہمیں شعوری کا درس دیتا ہے کہ :
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

The post بدلتا ہے آسمان دنگ کیسے کیسے تحریر : حسنین علی appeared first on Public Sphare.

]]>
http://publicsphare.com/2024/04/08/%d8%a8%d8%af%d9%84%d8%aa%d8%a7-%db%81%db%92-%d8%a2%d8%b3%d9%85%d8%a7%d9%86-%d8%af%d9%86%da%af-%da%a9%db%8c%d8%b3%db%92-%da%a9%db%8c%d8%b3%db%92-%d8%aa%d8%ad%d8%b1%db%8c%d8%b1-%d8%ad/feed/ 0 1088
ڈیورنڈ لائن کے وہ حقائق جو تاریخ کا حصہ نہیں تحریر : واجد یوسفزئی http://publicsphare.com/2024/03/30/%da%88%db%8c%d9%88%d8%b1%d9%86%da%88-%d9%84%d8%a7%d8%a6%d9%86-%da%a9%db%92-%d9%88%db%81-%d8%ad%d9%82%d8%a7%d8%a6%d9%82-%d8%ac%d9%88-%d8%aa%d8%a7%d8%b1%db%8c%d8%ae-%da%a9%d8%a7-%d8%ad%d8%b5%db%81/ http://publicsphare.com/2024/03/30/%da%88%db%8c%d9%88%d8%b1%d9%86%da%88-%d9%84%d8%a7%d8%a6%d9%86-%da%a9%db%92-%d9%88%db%81-%d8%ad%d9%82%d8%a7%d8%a6%d9%82-%d8%ac%d9%88-%d8%aa%d8%a7%d8%b1%db%8c%d8%ae-%da%a9%d8%a7-%d8%ad%d8%b5%db%81/#respond Sat, 30 Mar 2024 14:49:49 +0000 http://publicsphare.com/?p=1083 آج کل خیبرپختونخوا(سابقہ صوبہ سرحد) کے باشندے ایک نہ ختم ہونے والے تذبذب اور نہ […]

The post ڈیورنڈ لائن کے وہ حقائق جو تاریخ کا حصہ نہیں تحریر : واجد یوسفزئی appeared first on Public Sphare.

]]>
آج کل خیبرپختونخوا(سابقہ صوبہ سرحد) کے باشندے ایک نہ ختم ہونے والے تذبذب اور نہ حل ہونے والے معمے کا شکار ہے اور وہ یہ ہے کہ کیا وہ افغان ہے بھی یا نہیں اور اگر افغان ہے تو پھر یہ سرزمین ریاست افغانستان کا حصہ کیوں نہیں ہے؟ کیا وہ پاکستان کا حصہ ہو کر اپنے اکثریت میں پائے جانے والے پشتونوں سے بزور شمشیر تو الگ نہیں کیے گئے ہیں؟

اس جیسے سوالات کے جوابات ڈھونڈنے کے لیے اکثریت تاریخ کے بجائے جزبات کی جانب رجوع کرتے ہیں اور پاکستان سے الگ ہوکر یا تو افغانستان کا حصہ بننے یا بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے پشتون آبادی والے علاقوں پر مشتمل ایک الگ ملک پختونستان بنانے کے حوالے سے اپنے سوچ کا زاویہ بناتے ہیں۔

اس میں ایک گروہ ان لوگوں کا بھی ہے جو خود کو کہتے تو محب وطن پاکستانی ہیں لیکن دوسری طرف نسلی ہم آہنگی رکھنے کی وجہ سے ایسے بیانات دیتے ہیں جس سے عام لوگوں کی پاکستان سے نفرت اور قوم پرستی اور نسل پرستی کی طرف کھینچنے کےجذبات مبذول ہوتے ہیں ۔

بطور صحافت کے طالب علم آج میں نے ضروری سمجھا کہ اپنے ملک کے باشندوں کے سامنے کچھ ایسے تاریخی شواہد سامنے لاؤ جس کو مد نظر رکھ کر ہر عقل و شعور رکھنے والا شخص جزبات کے بجائے ایسے سوالات کا جواب تاریخ کے آئینے کو مد نظر رکھ کر ڈھونڈے۔ یہ گویا وہ حقائق ہیں جو ابھی تک ریاستی سطح پر اکثر ریاستی معاملات کو نپٹنے والوں کی نظر سے بھی دور ہیں۔

اس کے علاؤہ اکثر پڑھے لکھے نوجوان پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا اور صوبہ بلوچستان کے پشتون آبادی والے علاقے کو مرٹمر ڈیورنڈ کی سو سالہ معاہدہ قرار دیکر 1993ء کے بعد یہ علاقہ اب ایک بار پھر افغانستان کا حصہ گردانتے ہیں۔

اس سوال کے جواب کے لیے معاہدے کی تمام کے تمام یعنی سات میں سے سات نکات پڑھتے ہوئے ہمیں ایک بھی ایسا نکتہ نہیں ملا جس میں سرحد کی سو سالہ حد بندی کا ذکر موجود ہوں یعنی یہ بھی بلا تحقیق اور اپنے طرف سے گھڑ لینے والا دعویٰ ثابت ہوتا ہے۔ البتہ اس معاہدے کے تحت امیر عبدالرحمان کی سالانہ 0.6 ملین روپے کی سبسڈی کو برطانوی ہند کی حکومت نے بڑھا کر بطور دوستی 1.2 ملین روپے مقرر کیا گیا تھا۔

تاریخی پس منظر کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں مختلف تاریخی کتابوں کا بغور مطالعہ کرنا چاہیے ۔سلیمان شاہد نے اپنے کتاب ریاست دیر پر لکھے گئے تاریخ “گمنام ریاست” میں زکر کیا ہے کہ جب افغانستان کے صوبہ اسمار کے گورنر شاہ تماس خان کے قتل ہونے کے بعد اس کا بھائی غلام خان جندول(جو موجودہ دیر کا حصہ ہے) آیا اور عمرا خان(جس کو انگریزوں نے افغان نپولین کا خطاب دیا تھا) کو اپنے بھتیجے عبد القدیر خان کے خلاف لشکر کشی کے لیے ابھارا تو عمرا خان نے عبد القدیر خان کو خط کے ذریعے اقتدار سے دستبرداری کی درخواست کی اور ساتھ حملے کی دھمکی بھی دی۔

جب عبد القدیر خان نے خط کا جواب نہ دیا تو عمرا خان نے پانچ سو سپاہیوں کا لشکر غلام خان کی قیادت میں روانہ کیا جس نے افغانستان کے حدود پار کر اسمار، مرواڑہ، ساؤ اور بریکوٹ تک علاقے قبضہ کیے۔

اس وقت کے افغانستان کے بادشاہ امیر عبدالرحمان نے خبر پاکر غلام خان پر جوابی لشکر کشی کے لیے افواج بھیجنے کا حکم دیا اور غلام خان سے اقتدار واپس چھین لینے کے علاؤہ جندول یعنی عمرا خان کی ریاست کا بھی کچھ حصہ قبضہ میں لے لیا۔

افغان لشکر کی واپسی پر عمرا خان نے قبائل کو ساتھ ملا کر اپنے علاقے امیر عبدالرحمان سےوپس چھڑا لیے۔ امیر عبدالرحمان یہ جان کر سخت برہم ہوئے عمرا خان پر ایک بار پھر شدید لشکر کشی کا حکم دیا لیکن اس کے جرنیل نے مشورہ دیا کہ اس بنجر علاقے کو قبضہ کرنے سے ہمیں کچھ نہیں ملے گا اور دوسری بات یہ کی عمرا خان پر حملہ برطانوی ہند کی حکومت اپنے اوپر حملہ تصور کرے گا۔

چنانچہ امیر عبدالرحمان نے انڈین حکومت سے عمرا خان کے حملے کی شکایت کردی۔ جس کے نتیجے میں 30 جون کو انڈین گورنمنٹ سیکرٹری جارج کننگھم نے وائسرائے ہند لارڈ رفن کی طرف سے عمرا خان کو ایک خط لکھا جس میں درج تھا کہ؛
You are asked to refrain yourself from such aggressions”.
یعنی تمہیں خبردار کیا جاتا ہے کہ اس قسم کی جارحیت سے باز رہو۔
عمرا خان نے دہلی کو وضاحت دی لیکن اس لڑائی سے برطانوی ہند اور ریاست جندول کی تعلقات متاثر ہوئے۔

یہاں پر اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ افغانستان پر عمرا خان کی مداخلت اور حملے ڈیورنڈ لائن کی پیش منظر ہیں۔کیونکہ اس حملوں سے پہلے افغانستان اور برطانوی ہند کے درمیان کوئی مستقل حد بندی لائن نہیں تھی لیکن ان جھڑپوں کے بعد انڈین گورنمنٹ نے اس طرف توجہ مبذول کی اور ہندوستان اور افغانستان کے درمیان کی مستقل سرحد بنانے کا ارادہ کیا۔

اسی طرح افغانستان کی طرف سے محمد عمر خان اور انگریزوں کی طرف سے مارٹمر ڈیورنڈ نے دونوں سلطنتوں کے درمیان 2640 کلومیٹر کی ایک مستقل حد بندی کے معاہدے پر افغانستان کے دارالحکومت کابل میں دستخط کیے۔

تاریخی حقائق کو مدنظر رکھ کر دونوں ممالک کے بااختار قوتوں کو اب اس سرحد کی مستقل حیثیت کو تسلیم کر لینا چاہیئے تاکہ دونوں اطراف غیر ریاستی عناصر تناؤ کا فائدہ نہ اٹھا سکے۔
حال ہی میں یہ سرحد افغانستان اور پاکستان کی سیکورٹی فورسز کے درمیان تناؤ کا مرکز رہا جس سے نہ صرف بے چینی بڑھی بلکہ عالمی قوتوں نے خوب تخریب کاری سے دونوں برادر اسلامی ممالک کے درمیان فاصلے بڑھانے میں اپنا حصہ ڈالا۔ اس جیسے مذید واقعات کی روک تھام کے لیے دونوں ممالک کے مقتدر حلقوں کے درمیان گفت و شنید کی اشد ضرورت ہے تاکہ یہ خطہ مزید عالمی گریٹ گیمز کا حصہ نہ بنے اور دونوں اطراف شہری پُرامن زندگی بسر کرسکے۔

The post ڈیورنڈ لائن کے وہ حقائق جو تاریخ کا حصہ نہیں تحریر : واجد یوسفزئی appeared first on Public Sphare.

]]>
http://publicsphare.com/2024/03/30/%da%88%db%8c%d9%88%d8%b1%d9%86%da%88-%d9%84%d8%a7%d8%a6%d9%86-%da%a9%db%92-%d9%88%db%81-%d8%ad%d9%82%d8%a7%d8%a6%d9%82-%d8%ac%d9%88-%d8%aa%d8%a7%d8%b1%db%8c%d8%ae-%da%a9%d8%a7-%d8%ad%d8%b5%db%81/feed/ 0 1083
پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے تحریر: جہانگیر خان http://publicsphare.com/2024/03/02/%d9%be%d8%a7%da%a9%d8%b3%d8%aa%d8%a7%d9%86-%d9%85%db%8c%da%ba-%d8%b3%d8%a8-%da%a9%da%86%da%be-%da%86%d9%84%d8%aa%d8%a7-%db%81%db%92-%d8%aa%d8%ad%d8%b1%db%8c%d8%b1-%d8%ac%db%81%d8%a7%d9%86/ http://publicsphare.com/2024/03/02/%d9%be%d8%a7%da%a9%d8%b3%d8%aa%d8%a7%d9%86-%d9%85%db%8c%da%ba-%d8%b3%d8%a8-%da%a9%da%86%da%be-%da%86%d9%84%d8%aa%d8%a7-%db%81%db%92-%d8%aa%d8%ad%d8%b1%db%8c%d8%b1-%d8%ac%db%81%d8%a7%d9%86/#respond Sat, 02 Mar 2024 11:12:16 +0000 http://publicsphare.com/?p=1058 _پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے_ بہت آسان ہوتا ہے اپنے گناہوں اور کوتاہیوں کو […]

The post پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے تحریر: جہانگیر خان appeared first on Public Sphare.

]]>
_پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے_

بہت آسان ہوتا ہے اپنے گناہوں اور کوتاہیوں کو دوسروں کے گلے کا ہار بنانا، اپنی نااہلیوں پر حالات کے سازگار نہ ہونے کا پردہ ڈالنا، خود کو دودھ کا دھلا اور دوسروں کو کچرے کا ڈھیر کہنا، خود کو بے گناہ اور دوسروں کو گناہ گار ٹہھرانا، خود کو عالم اور دوسروں کو جاہل سمجھنا، خود کو معصوم اور دوسروں کو شاطر اور چالاک سمجھنا، خود کو حلالی اور دوسروں کو حرامی کہنا، خود کو جنتی اور دوسروں کو جہنمی کہنا، وغیرہ وغیرہ۔۔۔

  1. یہی حال آج کل ہمارا بھی ہے، اپنے ہر گناہ اور غلط فعل کو “پاکستان” کا نام جو دیا ہے۔ آپ نے ہزار مرتبہ یہ جملہ سنا ہوگا، “پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے”۔ اس کی تفصیل پر جانے سے پہلے میں آپ سے کچھ معصومانہ سوالات پوچھنا چاہتا ہوں، کیا پاکستان میدانوں اور عمارتوں کا نام ہے؟ کیا پاکستان چرند، پرند اور خزند کا نام ہے؟ کیا پاکستان دریاوں اور پہاڑوں کا نام ہے؟ کیا پاکستان حیوانات اور نباتات کا نام ہے؟ کیا پاکستان جنات کا نام ہے؟ اگر ان تمام سوالات کا جواب “ہاں” ہے تو پھر اوپر دئیے ہوئے جملے (پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے) پر کچھ خاص بات نہیں ہو سکتی اور اس پر ہم اپنا قیمتی وقت ضائع نہیں کر سکتے لیکن اگر ان سوالات کا جواب “نا” ہے تو پھر اس جملے پر لمبی بات ہو سکتی ہے اور کرنی بھی چاہیئے کیونکہ “نا” والے جواب سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر پاکستان اوپر بیان کی ہوئی چیزوں کا نام نہیں ہے تو پھر یقینا یہ “انسانوں” کا نام ہے۔ میرے نامکمل اور محدود علم کے مطابق ان سوالات کا جواب “نا” ہے، میرا مطلب یہ ہے کہ اس موضوع پر بات ہوسکتی ہے اور میں کرنا چاہتا ہوں۔

بات کچھ یوں ہے کہ پاکستان میں طرح طرح لاعلاج بیماریاں پھیل چکی ہیں جن میں بدعنوانی، سود خوری، رشوت ستانی، بدمعاشی، چوری، جھوٹ اور حق تلفی وغیرہ سر فہرست ہیں اور سب سے اہم یہ کہ ان تمام بیماریوں کا تعلق میدانوں، پہاڑوں، دریاوں، جانوروں، پرندوں اور پودوں سے نہیں ہے بلکہ ان کا تعلق اشرف المخلوقات (انسان) سے ہے۔

اب آتے ہیں تفصیل کی طرف جس کی اشد ضرورت ہے۔ چونکہ پاکستان “انسانوں” کا نام ہے اور اوپر دی گئی بیماریوں کا تعلق بھی انسانوں سے ہے اس لئے میں انسانوں کو ہی اپنا موضوع تحریر چن رہا ہوں۔
کوئی رشوت لے کر، دوسرے کا حق بیچ کر کہتا ہے پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے۔ کوئی رشوت دے کر، دوسرے کا حق چھین کر کہتا ہے پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے۔ کوئی جعلی ڈگری حاصل کرکے، ملک و قوم کا مستقبل داو پر لگا کر کہتا ہے پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے۔ کوئی دولت کی طاقت سے دوسروں کے کندھوں پر چڑھ کر، آگے جاکر کہتا ہے پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے۔ کوئی سفارش سے نوکری حاصل کرکے، مستحق لوگوں کا حق مار کر کہتا ہے پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے۔ کوئی ایک مرغی اور بریانی کی پلیٹ کے بل بوتے پر اپنا امتحان پاس کروا کر کہتا ہے پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے۔ کوئی دودھ میں پانی شامل کرکے، اسے بیچ کر کہتا ہے پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے۔ کوئی بکرے کی جگہ کتا ذبح کرکے، اسے بیچ کر کہتا ہے پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے۔ کوئی “ناٹ فار سیل” والی کتب بیچ کر کہتا ہے پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے۔

میں بذات خود کبھی کبھی یہ سوچ کر بہت پریشان ہو جاتا ہوں کہ یہ پاکستان آخر ہے کیا؟ کیا یہ کوئی بھوت بنگلہ ہے یا کوئی نادیدہ قوت ہے؟ نہیں بلکل نہیں! بلکہ پاکستان ہم خود ہیں۔ ہم انسانوں نے مل کر ایک ملک و قوم کی بنیاد رکھی ہے جس کا نام “پاکستان” ہے۔ اگر ہم سب اس خطہ ارض سے ہجرت کر جائیں یا کوئی آسمانی یا مصنوعی آفت ہمیں نیست و نابود کردے تو پھر یہ خطہ ارض پاکستان نہیں رہے گا بلکہ یہ علاقہ غیر بن جائے گا۔ ہم نہیں رہیں گے تو پاکستان بھی نہیں رہے گا۔ نام “پاکستان” ہم انسانوں میں تب تک زندہ ہے جب تک ہماری سانسیں چل رہی ہیں ورنہ اکیلے یہ کچھ بھی نہیں کیونکہ نام “پاکستان” کا مطلب ہے “پاک لوگوں کا وطن”۔ اس سے اگر آپ لفظ “لوگ” مٹاو گے تو یہ بے معنی ہو کر خود بھی مٹ جائے گا۔

اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم کب تک اپنی بے ایمانیوں، کوتاہیوں، غلطیوں اور گناہوں پر نام “پاکستان” کا پردہ ڈال کر خود کو بے گناہ اور معصوم ثابت کرتے رہیں گے۔ جملہ “پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے” میں لفظ “پاکستان” سے مراد پہاڑ، دریا، میدان اور عمارتیں نہیں ہیں کیونکہ یہ پہاڑ، دریا، میدان اور عمارتیں نہ تو رشوت لیتے ہیں، نہ رشوت دیتے ہیں، نا کسی کو دھوکہ دیتے ہیں، نا کسی کا حق مارتے ہیں اور نہ ہی کسی کو مار سکتے ہیں۔ بھئی! یہ کام تو ہمارے ہیں۔ رشوت بھی ہم لیتے اور دیتے ہیں، دھوکہ بھی ہم دیتے ہیں اور دوسرے کا حق بھی ہم ہی مارتے ہیں۔ اس لئے جملہ “پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے” میں لفظ “پاکستان” سے مراد ہم انسان ہیں۔

اب کوئی مجھے یہ بتائے کہ پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے یا ہمارے کھاتہ میں سب کچھ چلتا ہے؟ ہم کب تک نام “پاکستان” کے پیچھے چھپتے رہیں گے اور اس کلمہ کا ورد کرتے رہیں گے؟ بس! اب بہت ہو گیا۔ اب خود کو بدلنا ہے اور معاشرے کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے۔ لہذا آج سے مصمم ارادہ کریں کہ آئندہ میں کوئی بھی ناجائز کام نہیں کروں گا اور اگر کروں گا تو پھر یہ نہیں کہوں گا کہ پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے بلکہ یہ کہوں گا کہ میں اپنے مفاد کیلئے کسی بھی ناجائز حد تک گر سکتا ہوں، میں ایک بد فعل انسان ہوں اور میرا نام “پاکستان” ہے۔
یہ یاد رکھیئے، جس دن آپ نے اس کلمہ (پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے) کا ورد کرنا چھوڑ دیا، پھر دیکھنا معاشرہ کیسے بدلتا ہے اور کامیابی کیسے آپ کے قدم چھومتی ہے۔
تحریر: جہانگیر خان

The post پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے تحریر: جہانگیر خان appeared first on Public Sphare.

]]>
http://publicsphare.com/2024/03/02/%d9%be%d8%a7%da%a9%d8%b3%d8%aa%d8%a7%d9%86-%d9%85%db%8c%da%ba-%d8%b3%d8%a8-%da%a9%da%86%da%be-%da%86%d9%84%d8%aa%d8%a7-%db%81%db%92-%d8%aa%d8%ad%d8%b1%db%8c%d8%b1-%d8%ac%db%81%d8%a7%d9%86/feed/ 0 1058
انبیاء اور مسلم سائنسدانوں کو مشرق اور مغرب میں مختلف ناموں سے کیوں یاد کیا جاتا ہے؟ تحریر: فرح جی http://publicsphare.com/2023/12/13/%d8%a7%d9%86%d8%a8%db%8c%d8%a7%d8%a1-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d9%85%d8%b3%d9%84%d9%85-%d8%b3%d8%a7%d8%a6%d9%86%d8%b3%d8%af%d8%a7%d9%86%d9%88%da%ba-%da%a9%d9%88-%d9%85%d8%b4%d8%b1%d9%82-%d8%a7%d9%88%d8%b1/ http://publicsphare.com/2023/12/13/%d8%a7%d9%86%d8%a8%db%8c%d8%a7%d8%a1-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d9%85%d8%b3%d9%84%d9%85-%d8%b3%d8%a7%d8%a6%d9%86%d8%b3%d8%af%d8%a7%d9%86%d9%88%da%ba-%da%a9%d9%88-%d9%85%d8%b4%d8%b1%d9%82-%d8%a7%d9%88%d8%b1/#respond Wed, 13 Dec 2023 08:35:13 +0000 http://publicsphare.com/?p=1025 ہم جانتے ہیں کہ اہل مغرب انبیاء کو مختلف ناموں سے آزماتے ہیں جیسے کہ […]

The post انبیاء اور مسلم سائنسدانوں کو مشرق اور مغرب میں مختلف ناموں سے کیوں یاد کیا جاتا ہے؟ تحریر: فرح جی appeared first on Public Sphare.

]]>
  • ہم جانتے ہیں کہ اہل مغرب انبیاء کو مختلف ناموں سے آزماتے ہیں جیسے کہ حضرت عیسیٰ کو حضرت عیسیٰ کو حضرت داؤد کو داؤد، حضرت سلیمان کو سلیمان، حضرت ابراہیم کو ابراہیم، حضرت اسحاق کو اسحاق، حضرت موسیٰ اور حضرت یوسف کو یوسف۔ ناموں سے جانا جاتا ہے۔ انبیاء کے یہ نام یونانی ناموں کی انگریزی صورت۔
    بالکل اسی طرح سے مسلم بھی اہل مغرب میں الگ الگ نام رکھتے ہیں کہ جیسے بو علی سینا کو Avicenna، الفرابی کو Alphacabins، ابن رشد کو Averroes، جابر بن حیان کو Gaber، رازی کو Rhazes اور ابوالقاسمراوی کو Abulcasis۔ ناموں سے مشقت اور جانا جاتا ہے۔
  • مگر سوال یہ ہے کہ آخر ایک ہی شخص کے لیے دو مختلف نام کیوں؟

    دراصل اس کی مختلف وجوہات ہیں۔انبیاء کے ناموں کے حوالے سے اہل مغرب کا دعوی ہے کہ یونانی نام ہی اصلی نام ہیں اور عربی نام یونانی ناموں سے اخذ کیے گئے ہیں۔ اس کے برعکس مسلمانوں کے مطابق عربی نام ہی حقیقی ہیں۔ علاوہ ازیں عربی زبان یونانی زبان سے زیادہ قدیم ہے۔اگر بات مسلم سائنس دانوں کے مختلف ناموں کی کی جائے تو صورت حال مختلف ہے۔ دراصل ان تمام سائنس دانوں کا تعلق سنہرے اسلام  دور سے تھا جب مسلمان علم کے میدان میں ترقی کی نئی نئی منازل طے کر رہے تھے۔ قرون وسطی میں مشرق اور مغرب کے درمیان تجارت سے ثقافتی تعلقات اور علمی فروغ میں تیزی آئی۔ لہذا اہل مغرب نے مسلم سائنس دانوں کے ناموں کی لاطینی سازی کی۔ آغاز میں اس کا مقصد مخص لسانی مطابقت اور ثقافتی ہم آہنگی پیدا کرنا تھا اور مغربی ادبی روایات کے ڈھانچے میں ڈھالنا تھا مگر اس کے باعث کئی منفی اثرات پیدا ہوئے۔ جن میں مسلمانوں کی ثقافتی شناخت مسخ ہوئی ان کی علمی کاوشوں کا استحصال کیا گیا اور یورپ مرکزیت کے تعصب نے جنم لیا۔

    ناموں کی لاطینی سازی کے باعث بہت سی غلط فہمیاں بھی پھیلی۔ کچھ مغربی لکھاری اور تاریخ دان مثلاً Will Durantاور Sarton نے یہ دعوی بھی کیا کہ ان مسلم سائنسدانوں کا تعلق مغرب سے ہے۔ دورِ حاضر میں حقیقی ناموں کے استمعال پر اصرار کیا جاتا ہے تاکہ اس قوم کی علمی اور ادبی کاوشوں کو صحیح معنوں میں سراہا جاسکے۔

     

    The post انبیاء اور مسلم سائنسدانوں کو مشرق اور مغرب میں مختلف ناموں سے کیوں یاد کیا جاتا ہے؟ تحریر: فرح جی appeared first on Public Sphare.

    ]]>
    http://publicsphare.com/2023/12/13/%d8%a7%d9%86%d8%a8%db%8c%d8%a7%d8%a1-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d9%85%d8%b3%d9%84%d9%85-%d8%b3%d8%a7%d8%a6%d9%86%d8%b3%d8%af%d8%a7%d9%86%d9%88%da%ba-%da%a9%d9%88-%d9%85%d8%b4%d8%b1%d9%82-%d8%a7%d9%88%d8%b1/feed/ 0 1025
    زیر زمین انوکھا شہر http://publicsphare.com/2023/12/07/%d8%b2%db%8c%d8%b1-%d8%b2%d9%85%db%8c%d9%86-%d8%a7%d9%86%d9%88%da%a9%da%be%d8%a7-%d8%b4%db%81%d8%b1/ http://publicsphare.com/2023/12/07/%d8%b2%db%8c%d8%b1-%d8%b2%d9%85%db%8c%d9%86-%d8%a7%d9%86%d9%88%da%a9%da%be%d8%a7-%d8%b4%db%81%d8%b1/#respond Thu, 07 Dec 2023 07:47:55 +0000 http://publicsphare.com/?p=990 ہم سب نے زمین کے نیچے چلنے والی ٹرین اور زیر زمین سرنگ کے بارے […]

    The post زیر زمین انوکھا شہر appeared first on Public Sphare.

    ]]>
    ہم سب نے زمین کے نیچے چلنے والی ٹرین اور زیر زمین سرنگ کے بارے میں تو ضرور سنا ہو گا مگر کیا آپ جانتے ہیں اس شہر کے بارے میں جو زیر زمین ہی آباد ہے۔ اس چھوٹے سےشہر میں 1500 کے قریب گھر، ہوٹل، یہاں تک کے چرچ اور میوزیم بھی موجود ہیں۔

    مگر آخر یہ شہر ہے کہاں؟
    اور لوگ زیر زمین کیوں رہتے ہیں؟

    3500 افراد کی آبادی پر مشتمل “کوبر پیدی” کا یہ شہر جنوبی آسٹریلیا کے شمالی حصے میں اسٹوارٹ ہائی وے پر واقع ہے۔ دراصل100 سال پہلے بہت سے کان کن ، اوپل نامی دودھیا رنگ کے پتھر کی تلاش میں یہاں آتے تھے۔ مگر گرمی کی شدت کے باعث انھوں نے زمین کے اندر ہی گھر بنانے کا آغاز کیا۔ کان کن ہونے کے باعث وہ جانتے تھے کہ زمین میں رکہاں کھدائی کرنا بہتر ہے۔ یہاں تک کہ ایک شہر بنتا چلا گیا۔
    یہ گھر صحرائی علاقے کی موسمی شدت کے باوجو د بھی بتدریج ٹھنڈے رہتے ہیں۔ اوپر سے ریت کے ٹیلوں کی مانند نظر آنے والے گھر درحقیقت اندر سے بہت خوب صورتی سے تراشے گئے ہیں ۔ یہاں کے لوگ زندگی کی تمام سرگرمیاں زیر زمیں ہی سرانجام دیتے ہیں۔

    مگر یہ لوگ آخر زمین کے نیچے سانس کیسے لیتے ہیں؟

    قدرتی ہوا کے خراج کے لیے گھروں کی چھتوں پر چمنیاں نصب کی گئی ہیں اور گھروں کے دروازے زمین کے اوپر بنائے گئے ہیں ۔ جس کے باعث ہوا گردش میں رہتی ہے مزید برآں بجلی کی پیداوار ک ےلیے سورج کی روشنی کا استمعال کیا جاتا ہے۔
    کوبر پدی کا شہر اوپل نامی پھر کا مرکز ہونے کے ساتھ ساتھ سیاحوں کے لیے دلچسپی کا باعث ہیں۔

    The post زیر زمین انوکھا شہر appeared first on Public Sphare.

    ]]>
    http://publicsphare.com/2023/12/07/%d8%b2%db%8c%d8%b1-%d8%b2%d9%85%db%8c%d9%86-%d8%a7%d9%86%d9%88%da%a9%da%be%d8%a7-%d8%b4%db%81%d8%b1/feed/ 0 990