Public Sphare http://publicsphare.com/ The all in One Mon, 08 Apr 2024 05:10:05 +0000 en-US hourly 1 https://wordpress.org/?v=6.5.5 230858675 اک حسیں عہد تمام ہوا http://publicsphare.com/2024/04/08/%d8%a7%da%a9-%d8%ad%d8%b3%db%8c%da%ba-%d8%b9%db%81%d8%af-%d8%aa%d9%85%d8%a7%d9%85-%db%81%d9%88%d8%a7/ http://publicsphare.com/2024/04/08/%d8%a7%da%a9-%d8%ad%d8%b3%db%8c%da%ba-%d8%b9%db%81%d8%af-%d8%aa%d9%85%d8%a7%d9%85-%db%81%d9%88%d8%a7/#respond Mon, 08 Apr 2024 05:07:50 +0000 http://publicsphare.com/?p=1099 یوں اِک عہد تمام ہوا۔ پنجاب یونیورسٹی کے چار سالہ بیچلرز کا تعلق تو اپنے […]

The post اک حسیں عہد تمام ہوا appeared first on Public Sphare.

]]>
یوں اِک عہد تمام ہوا۔ پنجاب یونیورسٹی کے چار سالہ بیچلرز کا تعلق تو اپنے اختتام کو پہنچ گیا لیکن پی- یو کے ساتھ استوار ہونے والے لاتعداد تعلقات بمشکل ہی اختتام پزیر ہو سکیں گے۔ آج سے چار سال قبل خدا جانے کتنی دعائیں مانگ مانگ کر پنجاب یونیورسٹی میں داخلہ لیا تھا وہ بھی اپنی پسند کے مضامین میں۔ اُس وقت زندگی کا پہیہ صرف اس بات کے گرد گھومتا تھا کہ اگر پنجاب یونیورسٹی میں میرٹ پر نام نہ آیا تو کیا ہوگا۔ لیکن جب داخلہ ہو گیا تو آہستہ آہستہ اِس شدت میں ٹھہراؤ آگیا۔ پہلے سوچا کہ لفظ “کمی” لکھا جائے لیکن کمی تو آج بھی نہیں آئی البتہ “ٹھہراؤ” ضرور آ گیا ہے۔ اور مجھے تو پنجاب یونیورسٹی پہلے سے بہت زیادہ اچھی لگنے لگی ہے۔ شاید یہ فطرتِ انسان ہے کہ جو کچھ بھی جس وقت میں اُس کے پاس میسر نہیں ہوتا، ہمیشہ وہی ہر دل عزیز معلوم ہوتا ہے اور باقی ساری نعمتیں ثانوی حیثیت اختیار کر لیتی ہیں۔ اصولاً یوں ہونا تو نہیں چاہیے لیکن اصول ہر جگہ لاگو بھی کہاں ہی ہوتے ہیں!

خیر۔۔۔اپنا تعلق سکول سے ہی ہمیشہ اُس کلاس سے رہا جس میں ہر استاد کسی نہ کسی موڑ پر یہ ضرور کہہ ڈالتے کہ “ہم نے آج تک ایسی کلاس کبھی نہ دیکھی! اتنے سال ہو گئے پڑھاتے ہوئے لیکن آپ لوگوں جیسے بچے تو ۔۔۔” باقی قاری کو خود اتنا سمجھدار ہونا چاہیے کہ جملہ مکمل کر سکیں۔
ویسے میرا تعلق کسی درجے میں اُن خوش قسمت بچوں میں سے بھی رہا ہے جن کو ہر طرح کا ماحول ملا۔ کالج میں پہلے سال کی پرنسپل نہایت سُست اور دوسرے سال کی نہایت چُست ملی۔ پہلے سال میں کبھی کالج کی شکل نہ دیکھی اور دوسرے سال میں اِسی عادت کے پیشے نظر اللہ کے حکم سے نام چھے مرتبہ خارج کیا گیا۔ اور یونیورسٹی میں بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہوا۔ پہلے دو سال نہایت پر سکون تھے۔ ڈیپارٹمنٹ میں ہر ایک سے سلام دعا ہوتی تھی۔ سب ایک دوسرے کو جانتے تھے۔ اور جس کسی سے بات چیت نہ بھی ہوتی تو کم از کم یہ ضرور پتہ ہوتا تھا کہ فلاں کون ہے اور کس سیشن سے تعلق رکھتا ہے۔ چہروں سے شناسائی تھی۔ ڈیپارٹمنٹ کے ایڈمن کا عملا نہایت خوش اسلوبی سے اپنی اپنی ذمہ داریاں سر انجام دیتے۔ ہر استاد کو تقریباً ہر بچے کا پتا ہوتا۔ سینیئرز اور جونیئرز کا بھی نہایت خوبصورت تعلق ہوتا تھا۔ اور سب سے بڑھ کر ڈیپارٹمنٹ میں سکون نامی شے کافی مقدار میں پائی جاتی تھی۔

پھر اِک روز کایا پلٹی۔ میں ریڈیو میں خبر نامہ بنا رہی تھی کہ اطلاع موصول ہوئی کہ ہماری ترقی انسٹیٹیوٹ سے سکول میں ہو گئی ہے۔ یعنی Institute of Communication Studies سے اب School of Communication Studies بن چکا ہے۔ سادہ زبان میں HEC کی جانب سے بچوں کو بھیڑ بکریوں کی مانند داخلہ دینے کی حق حلال طریقے سے اجازت مل چکی تھی۔ اُس وقت تو بہت سے مبارکبادوں کا سیشن چلا۔ ہر سیمینار میں اِس امر کی افادیت سمجھائی جاتی۔ پھر آہستہ آہستہ حقیقت سے پردا اُٹھا جب انسٹیٹیوٹ والے بچوں کے ساتھ سوتیلوں جیسا سلوک ہونے لگا۔ سب سے پہلے تو ڈیپارٹمنٹ کا سکون غارت ہوا۔ اس رنگ اور نسل کی مخلوق دیکھنے کو ملی جو پہلے بندے کو صرف خوابوں میں نظر آیا کرتی تھیں اور بندہ لاحول ولاقوۃ پڑھ کر تِربَک کر اُٹھ جایا کرتا تھا۔ انتظامیہ پر انکی عادتاً استعداد کے مطابق زیادہ بوجھ پڑا جس کے نتیجے میں ہر آئے روز کوئی نہ کوئی دن کے وقت چاند چڑھا ہوتا تھا۔ یہ سب باتیں تو ایک طرف، ایک دن حیرت کے سمندر میں ڈُبکی تب لگی جب سکول کے زیرِ اہتمام آنے والے ڈیپارٹمنٹس کے میرٹ کا پتا چلا کہ 67 فیصد والے بچوں کو بھی چوم چاٹ کر ایڈمیشن مل رہا ہے۔ اور مجھے یاد پڑتا ہے کہ میرا میرٹ 87 فیصد کے قریب تھا اور میرا داخلہ خدا جانے کتنی منتیں مرادیں اور چِلے کاٹنے کے بعد شام میں تیسری لسٹ کے آخر پر جا کر آیا تھا۔ لیکن تب ڈیپارٹمنٹ کا ایک معیار قائم تھا۔ امید کرسکتے ہیں ہے کہ آنے والے وقت میں پھر سے صورتحال بہتری کی جانب سفر باندھے۔

اس سب کے باوجود پنجاب یونیورسٹی کا کوئی نعمل بدل نہیں۔ کیمپس لائف، کھیت، گدھے گاڑیاں، پی سی ڈھابہ، جمعیت کے واقعات، لمبی والکس، پانی کے کھاڑے، ہاسٹل کی سڑکیں، مختصراً ہر لحاظ سے پنجاب یونیورسٹی کا محل وقوع کسی جنت سے کم نہیں۔ ویسے میرے بہت سے ساتھی اس بات سے شاید اتفاق نہیں کریں گے کیونکہ وہ ہمیشہ پی – یو کو کوستے آئے ہیں۔ میں مانتی ہوں کہ پی-یو میں بذات خود بہت سے نقائص بھی تھے۔ سب سے بڑھ کر تو یہ تھا کہ وہ کام جو ہمیں چار سالوں میں کرایا گیا وہ بندے کے پتروں کے طریقے سے آرام سے دو سالوں میں ہو سکتا تھا جس کی وجہ سے عمومی و اجتماعی رویہ سستی اور کاہلی کا پروان چڑھا۔ لیکن اس سب کے باوجود میرے پلڑے میں آج پی – یو کی اچھائیاں زیادہ ہیں اور برائیاں کم۔ یہاں آنے کے توسل سے بہت سے لوگوں سے تعلقات بنے۔ کچھ پختہ ہوئے اور کچھ کمزور پڑے۔ الغرض ذاتی و نجی زندگی میں پی-یو نے ہر لحاظ سے اپنی چھاپ چھوڑی۔ دعا گو ہیں کہ تعلیمی سفر کا اختتام اور عملی زندگی کا آغاز سب کے لیے خوشیوں کی دستک لے کر آئے!

The post اک حسیں عہد تمام ہوا appeared first on Public Sphare.

]]>
http://publicsphare.com/2024/04/08/%d8%a7%da%a9-%d8%ad%d8%b3%db%8c%da%ba-%d8%b9%db%81%d8%af-%d8%aa%d9%85%d8%a7%d9%85-%db%81%d9%88%d8%a7/feed/ 0 1099
بدلتا ہے آسمان دنگ کیسے کیسے تحریر : حسنین علی http://publicsphare.com/2024/04/08/%d8%a8%d8%af%d9%84%d8%aa%d8%a7-%db%81%db%92-%d8%a2%d8%b3%d9%85%d8%a7%d9%86-%d8%af%d9%86%da%af-%da%a9%db%8c%d8%b3%db%92-%da%a9%db%8c%d8%b3%db%92-%d8%aa%d8%ad%d8%b1%db%8c%d8%b1-%d8%ad/ http://publicsphare.com/2024/04/08/%d8%a8%d8%af%d9%84%d8%aa%d8%a7-%db%81%db%92-%d8%a2%d8%b3%d9%85%d8%a7%d9%86-%d8%af%d9%86%da%af-%da%a9%db%8c%d8%b3%db%92-%da%a9%db%8c%d8%b3%db%92-%d8%aa%d8%ad%d8%b1%db%8c%d8%b1-%d8%ad/#respond Mon, 08 Apr 2024 04:55:44 +0000 http://publicsphare.com/?p=1088 وقت اللّه کی بڑی نعمت ہے ۔ایک ہی لمحہ انسان کا ماضی ،حال اور مستقبل […]

The post بدلتا ہے آسمان دنگ کیسے کیسے تحریر : حسنین علی appeared first on Public Sphare.

]]>
وقت اللّه کی بڑی نعمت ہے ۔ایک ہی لمحہ انسان کا ماضی ،حال اور مستقبل بن جاتا ہے ۔ لیکن ماضی کے کچھ لمحات انسان کے ذہن میں ہمیشہ کے لیے پیوست ہو جاتے ہیں اورانسان نہ چاہتے ہوۓ بھی ان لمحات کو بھول نہیں پاتا۔اکتوبر 2018 کی بات ہے، کچھ عزیز دوستوں سے سیاسی گفتگو ہو رہی تھی۔ پی ٹی آئی حکومت کی ناکام کار کردگی اور ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی پر عزیز دوست وسیم نے تنقید کی اور کہا یہ سیاسی جماعت بھی باقی سیاسی جماعتوں کی طرح ٹھہری، اور اپنے موقفک “تبدیلی” کو ملک میں قائم کرتی ہوئی نظر نہیں آ رہی۔ وسیم نے میری راۓ پوچھی، حسنین بھائی آپ کے خیال میں کون سا سیاسی رہنما ملک کو معاشی مسائل سے نکال سکتا ہے ۔ لوگوں کےلیے روزگار کے مواقعے فراہم کر سکتا ہے۔ میں نے کہا؛ بھائی! کرم کرنے والی ذات تو اللّه کی ہے باقی انتظامی لحاظ سے ملک کے لیے نواز شریف بہتر ہیں۔ وسیم نے طنزیہ انداز میں کہا ، جناب ! وه عدالت کی طرف سے زندگی بھر کے لیے نا اہل قرار دیے جا چکے ہیں وه تو اب الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتے اور نہ ہی ملک کے وزیر اعظم بن سکتے ہیں ۔ کوئی اور لیڈر بتاؤ جو اس نظام کو بہتر کر سکے؟ خاکسار نے دھیمی آواز میں کہا جناب! یہ پاکستان ہے یہاں کی تاریخ پڑھو
“پاکستان میں کچھ بھی ہو سکتا ہے”
وقت نے رخ بدلا ، 2017 ء میں پاکستان کی بڑی عدالت (سپریم کورٹ ) نے جس نواز شریف کو نااہل قرار دیا ، 2023 میں وہی عدالت نے الزامات سے بری کر دیا اور نا اہلی ختم کرتے ہوئے آئندہ الیکشن لڑنے کی بھی اجازت دے دی۔ 5 فروری 2024ء کو بڑےقومی اخبارات میں ہیڈ لائن ہی “نواز شریف وزیر اعظم” کے طور پر چھپی۔ 1979ء میں احمد علی خاں قصوری قتل کیس میں ہائی کورٹ کے جسٹس مولوی مشتاق نے ذوالفقار علی بھٹو کو سزاۓ موت کا حکم دیا۔جبکہ 1978ء میں جسٹس اے-کے صمدانی کے پاس جب احمد خاں قتل کیس کی سنوائی ہوئی تو انہوں نے بھٹو صاحب کے حق میں فیصلہ کیا اور بری کرنے کا حکم دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے حق میں فیصلہ سنانے کے بعد جسٹس صمدانی صاحب کو عہدے سے ہی ہٹا دیا گیا ، لیکن 45 سال بعد 2024 میں جب سپریم کورٹ میں دوبارہ کیس لگا تو ملک کی بڑی عدالت نے(بھٹو) کی سزاے موت کے فیصلے کو غیر قانونی قرار دیا ۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ بھٹو کیس کا فیئر ٹرائل نہیں ہوا۔ 9 مئی 2023 کا دل سوز واقعہ ،جب قومی یادگاروں اور ملک کے اہم مقامات کو نقصان پہنچایا گیا ، توڑ پھوڑ کی گئی۔اس معاملے میں نہ صرف پی ٹی آئی جماعت اور اس کے کارکن پر الزام لگایا گیا بلکہ مخالف سیاسی جماعتوں نے تو پی ٹی آئی کو دہشت گرد،فسادی ،انتشار پسند ،شدت پسند پارٹی قرار دیا۔ لیکن 10 مئی کو جب پی ٹی آئی کے سربراہ( عمران خان ) عدالت میں پیش ہوے تو سابقہ چیف جسٹس( عمر عطاء بندیال ) نے سر بر اہ پی ٹی آئی کو دیکھ کر “nice to see you” کہا۔ 2024ء میں عوامی سروے کیا گیا کہ کونسا لیڈر عوام میں زیادہ مقبولیت رکھتا ہے۔
سروے کے نتا ئج کے بعد قومی اخبارات میں لیگی جماعت کے وزیر اعظم بننے کی بڑی سرخی چھپی ۔ لیکن 8 فروری کو پاکستان میں نئی تاریخ رقم ہوئی اور آزاد مبمران نے زیادہ ووٹ حاصل کئے ۔اور لیگی جماعت کے رہنما نواز شریف نے 9 فروری کو تقریر کرتے ہوئے کہا، ہمارے جماعت کے امید وار ہماری توقعات کے مطابق ووٹ حاصل نہیں کر سکے ۔لیکن قوم نے ایک نئے نظام کا مشاہدہ کیا کہ فارم 45 کی جگہ فارم 47 نے لے لی اور عوامی منیڈیٹ کی جیت کا فیصلہ فارم 47 کے نتائج کے مطابق ہوا۔ فروری
2024 میں سربراه پی ٹی آئی اور ان اہلیہ کو توشہ خانہ کیس میں 7 ،7 سال کی قید ہوئی لیکن 31 مارچ کو انہیں با عزت بری کرتے ہوئے جسٹس صاحب نے کہا کہ یہ کوئی کیس نہیں ہے۔ ایک اور بڑا دلچسپ واقعہ ہے کہ 23 مارچ کو ہونے والی ایوان صدر میں قومی تقریب پر ملک کی 397 نامور شخصیات کو سول اعزازات سے نوازا گیا۔ لیکن بہت سے جرنلسٹ نے اپنے کالم میں اس پر تنقید کی کہ ہم نے اتنے بڑے اعزاز کو كهلونا سا بنا ڈالا ۔۔۔
پانچ یا سات لوگوں سے زیادہ سول ایوارڈ دینا کیسے ممکن ہے۔۔ میرے ایک عزیز دوست واجد نے کہا، انڈیا کی 1 ارب 40 کروڑ آبادی میں سے صرف 132 لوگوں کو سول اعزازات دیا گیا۔جبکہ ہماری 26 کروڑ آبادی میں سے 397 لوگوں کو نوازا گیا۔ اگر ہماری قوم اتنی محنت پسند ہے تو پھر انڈیا کی ترقی کی پروان ہم سے بہتر کیوں ہے؟
میں نے چھ سال پرانا جملہ دہراتے ہو کہا کہ جناب !
“پاکستان میں کچھ بھی ہو سکتا ہے”
لیکن یہ سب ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے اگر ہم قوم اسی طرح فرسودگی کی حالت میں جیتے رہے تو تباہی و بربادی ہی ہمارا مقدر بنے گی ۔۔اس لیے قوم حقیقت جاننے کی کوشش کرے تا کہ ہم اس دلدل سے نکل سکیں اور کامیاب قوم بن سکیں ۔۔
اقبال کا مشہور شعر ہمیں شعوری کا درس دیتا ہے کہ :
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

The post بدلتا ہے آسمان دنگ کیسے کیسے تحریر : حسنین علی appeared first on Public Sphare.

]]>
http://publicsphare.com/2024/04/08/%d8%a8%d8%af%d9%84%d8%aa%d8%a7-%db%81%db%92-%d8%a2%d8%b3%d9%85%d8%a7%d9%86-%d8%af%d9%86%da%af-%da%a9%db%8c%d8%b3%db%92-%da%a9%db%8c%d8%b3%db%92-%d8%aa%d8%ad%d8%b1%db%8c%d8%b1-%d8%ad/feed/ 0 1088
ڈیورنڈ لائن کے وہ حقائق جو تاریخ کا حصہ نہیں تحریر : واجد یوسفزئی http://publicsphare.com/2024/03/30/%da%88%db%8c%d9%88%d8%b1%d9%86%da%88-%d9%84%d8%a7%d8%a6%d9%86-%da%a9%db%92-%d9%88%db%81-%d8%ad%d9%82%d8%a7%d8%a6%d9%82-%d8%ac%d9%88-%d8%aa%d8%a7%d8%b1%db%8c%d8%ae-%da%a9%d8%a7-%d8%ad%d8%b5%db%81/ http://publicsphare.com/2024/03/30/%da%88%db%8c%d9%88%d8%b1%d9%86%da%88-%d9%84%d8%a7%d8%a6%d9%86-%da%a9%db%92-%d9%88%db%81-%d8%ad%d9%82%d8%a7%d8%a6%d9%82-%d8%ac%d9%88-%d8%aa%d8%a7%d8%b1%db%8c%d8%ae-%da%a9%d8%a7-%d8%ad%d8%b5%db%81/#respond Sat, 30 Mar 2024 14:49:49 +0000 http://publicsphare.com/?p=1083 آج کل خیبرپختونخوا(سابقہ صوبہ سرحد) کے باشندے ایک نہ ختم ہونے والے تذبذب اور نہ […]

The post ڈیورنڈ لائن کے وہ حقائق جو تاریخ کا حصہ نہیں تحریر : واجد یوسفزئی appeared first on Public Sphare.

]]>
آج کل خیبرپختونخوا(سابقہ صوبہ سرحد) کے باشندے ایک نہ ختم ہونے والے تذبذب اور نہ حل ہونے والے معمے کا شکار ہے اور وہ یہ ہے کہ کیا وہ افغان ہے بھی یا نہیں اور اگر افغان ہے تو پھر یہ سرزمین ریاست افغانستان کا حصہ کیوں نہیں ہے؟ کیا وہ پاکستان کا حصہ ہو کر اپنے اکثریت میں پائے جانے والے پشتونوں سے بزور شمشیر تو الگ نہیں کیے گئے ہیں؟

اس جیسے سوالات کے جوابات ڈھونڈنے کے لیے اکثریت تاریخ کے بجائے جزبات کی جانب رجوع کرتے ہیں اور پاکستان سے الگ ہوکر یا تو افغانستان کا حصہ بننے یا بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے پشتون آبادی والے علاقوں پر مشتمل ایک الگ ملک پختونستان بنانے کے حوالے سے اپنے سوچ کا زاویہ بناتے ہیں۔

اس میں ایک گروہ ان لوگوں کا بھی ہے جو خود کو کہتے تو محب وطن پاکستانی ہیں لیکن دوسری طرف نسلی ہم آہنگی رکھنے کی وجہ سے ایسے بیانات دیتے ہیں جس سے عام لوگوں کی پاکستان سے نفرت اور قوم پرستی اور نسل پرستی کی طرف کھینچنے کےجذبات مبذول ہوتے ہیں ۔

بطور صحافت کے طالب علم آج میں نے ضروری سمجھا کہ اپنے ملک کے باشندوں کے سامنے کچھ ایسے تاریخی شواہد سامنے لاؤ جس کو مد نظر رکھ کر ہر عقل و شعور رکھنے والا شخص جزبات کے بجائے ایسے سوالات کا جواب تاریخ کے آئینے کو مد نظر رکھ کر ڈھونڈے۔ یہ گویا وہ حقائق ہیں جو ابھی تک ریاستی سطح پر اکثر ریاستی معاملات کو نپٹنے والوں کی نظر سے بھی دور ہیں۔

اس کے علاؤہ اکثر پڑھے لکھے نوجوان پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا اور صوبہ بلوچستان کے پشتون آبادی والے علاقے کو مرٹمر ڈیورنڈ کی سو سالہ معاہدہ قرار دیکر 1993ء کے بعد یہ علاقہ اب ایک بار پھر افغانستان کا حصہ گردانتے ہیں۔

اس سوال کے جواب کے لیے معاہدے کی تمام کے تمام یعنی سات میں سے سات نکات پڑھتے ہوئے ہمیں ایک بھی ایسا نکتہ نہیں ملا جس میں سرحد کی سو سالہ حد بندی کا ذکر موجود ہوں یعنی یہ بھی بلا تحقیق اور اپنے طرف سے گھڑ لینے والا دعویٰ ثابت ہوتا ہے۔ البتہ اس معاہدے کے تحت امیر عبدالرحمان کی سالانہ 0.6 ملین روپے کی سبسڈی کو برطانوی ہند کی حکومت نے بڑھا کر بطور دوستی 1.2 ملین روپے مقرر کیا گیا تھا۔

تاریخی پس منظر کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں مختلف تاریخی کتابوں کا بغور مطالعہ کرنا چاہیے ۔سلیمان شاہد نے اپنے کتاب ریاست دیر پر لکھے گئے تاریخ “گمنام ریاست” میں زکر کیا ہے کہ جب افغانستان کے صوبہ اسمار کے گورنر شاہ تماس خان کے قتل ہونے کے بعد اس کا بھائی غلام خان جندول(جو موجودہ دیر کا حصہ ہے) آیا اور عمرا خان(جس کو انگریزوں نے افغان نپولین کا خطاب دیا تھا) کو اپنے بھتیجے عبد القدیر خان کے خلاف لشکر کشی کے لیے ابھارا تو عمرا خان نے عبد القدیر خان کو خط کے ذریعے اقتدار سے دستبرداری کی درخواست کی اور ساتھ حملے کی دھمکی بھی دی۔

جب عبد القدیر خان نے خط کا جواب نہ دیا تو عمرا خان نے پانچ سو سپاہیوں کا لشکر غلام خان کی قیادت میں روانہ کیا جس نے افغانستان کے حدود پار کر اسمار، مرواڑہ، ساؤ اور بریکوٹ تک علاقے قبضہ کیے۔

اس وقت کے افغانستان کے بادشاہ امیر عبدالرحمان نے خبر پاکر غلام خان پر جوابی لشکر کشی کے لیے افواج بھیجنے کا حکم دیا اور غلام خان سے اقتدار واپس چھین لینے کے علاؤہ جندول یعنی عمرا خان کی ریاست کا بھی کچھ حصہ قبضہ میں لے لیا۔

افغان لشکر کی واپسی پر عمرا خان نے قبائل کو ساتھ ملا کر اپنے علاقے امیر عبدالرحمان سےوپس چھڑا لیے۔ امیر عبدالرحمان یہ جان کر سخت برہم ہوئے عمرا خان پر ایک بار پھر شدید لشکر کشی کا حکم دیا لیکن اس کے جرنیل نے مشورہ دیا کہ اس بنجر علاقے کو قبضہ کرنے سے ہمیں کچھ نہیں ملے گا اور دوسری بات یہ کی عمرا خان پر حملہ برطانوی ہند کی حکومت اپنے اوپر حملہ تصور کرے گا۔

چنانچہ امیر عبدالرحمان نے انڈین حکومت سے عمرا خان کے حملے کی شکایت کردی۔ جس کے نتیجے میں 30 جون کو انڈین گورنمنٹ سیکرٹری جارج کننگھم نے وائسرائے ہند لارڈ رفن کی طرف سے عمرا خان کو ایک خط لکھا جس میں درج تھا کہ؛
You are asked to refrain yourself from such aggressions”.
یعنی تمہیں خبردار کیا جاتا ہے کہ اس قسم کی جارحیت سے باز رہو۔
عمرا خان نے دہلی کو وضاحت دی لیکن اس لڑائی سے برطانوی ہند اور ریاست جندول کی تعلقات متاثر ہوئے۔

یہاں پر اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ افغانستان پر عمرا خان کی مداخلت اور حملے ڈیورنڈ لائن کی پیش منظر ہیں۔کیونکہ اس حملوں سے پہلے افغانستان اور برطانوی ہند کے درمیان کوئی مستقل حد بندی لائن نہیں تھی لیکن ان جھڑپوں کے بعد انڈین گورنمنٹ نے اس طرف توجہ مبذول کی اور ہندوستان اور افغانستان کے درمیان کی مستقل سرحد بنانے کا ارادہ کیا۔

اسی طرح افغانستان کی طرف سے محمد عمر خان اور انگریزوں کی طرف سے مارٹمر ڈیورنڈ نے دونوں سلطنتوں کے درمیان 2640 کلومیٹر کی ایک مستقل حد بندی کے معاہدے پر افغانستان کے دارالحکومت کابل میں دستخط کیے۔

تاریخی حقائق کو مدنظر رکھ کر دونوں ممالک کے بااختار قوتوں کو اب اس سرحد کی مستقل حیثیت کو تسلیم کر لینا چاہیئے تاکہ دونوں اطراف غیر ریاستی عناصر تناؤ کا فائدہ نہ اٹھا سکے۔
حال ہی میں یہ سرحد افغانستان اور پاکستان کی سیکورٹی فورسز کے درمیان تناؤ کا مرکز رہا جس سے نہ صرف بے چینی بڑھی بلکہ عالمی قوتوں نے خوب تخریب کاری سے دونوں برادر اسلامی ممالک کے درمیان فاصلے بڑھانے میں اپنا حصہ ڈالا۔ اس جیسے مذید واقعات کی روک تھام کے لیے دونوں ممالک کے مقتدر حلقوں کے درمیان گفت و شنید کی اشد ضرورت ہے تاکہ یہ خطہ مزید عالمی گریٹ گیمز کا حصہ نہ بنے اور دونوں اطراف شہری پُرامن زندگی بسر کرسکے۔

The post ڈیورنڈ لائن کے وہ حقائق جو تاریخ کا حصہ نہیں تحریر : واجد یوسفزئی appeared first on Public Sphare.

]]>
http://publicsphare.com/2024/03/30/%da%88%db%8c%d9%88%d8%b1%d9%86%da%88-%d9%84%d8%a7%d8%a6%d9%86-%da%a9%db%92-%d9%88%db%81-%d8%ad%d9%82%d8%a7%d8%a6%d9%82-%d8%ac%d9%88-%d8%aa%d8%a7%d8%b1%db%8c%d8%ae-%da%a9%d8%a7-%d8%ad%d8%b5%db%81/feed/ 0 1083
مختلف ادوار کی مناسبت سے دیر کی تاریخ اور وجہ تسمیہ تحریر از: واجد یوسفزئی http://publicsphare.com/2024/03/28/%d9%85%d8%ae%d8%aa%d9%84%d9%81-%d8%a7%d8%af%d9%88%d8%a7%d8%b1-%da%a9%db%8c-%d9%85%d9%86%d8%a7%d8%b3%d8%a8%d8%aa-%d8%b3%db%92-%d8%af%db%8c%d8%b1-%da%a9%db%8c-%d8%aa%d8%a7%d8%b1%db%8c%d8%ae-%d8%a7%d9%88/ http://publicsphare.com/2024/03/28/%d9%85%d8%ae%d8%aa%d9%84%d9%81-%d8%a7%d8%af%d9%88%d8%a7%d8%b1-%da%a9%db%8c-%d9%85%d9%86%d8%a7%d8%b3%d8%a8%d8%aa-%d8%b3%db%92-%d8%af%db%8c%d8%b1-%da%a9%db%8c-%d8%aa%d8%a7%d8%b1%db%8c%d8%ae-%d8%a7%d9%88/#respond Thu, 28 Mar 2024 06:57:07 +0000 http://publicsphare.com/?p=1073 دیر، خیبرپختونخوا کے شمال میں واقع قدرت   خوبصورتی سے مالامال ایک سرسبزوشاداب وادی ہیں۔ یہاں […]

The post مختلف ادوار کی مناسبت سے دیر کی تاریخ اور وجہ تسمیہ تحریر از: واجد یوسفزئی appeared first on Public Sphare.

]]>
دیر، خیبرپختونخوا کے شمال میں واقع قدرت   خوبصورتی سے مالامال ایک سرسبزوشاداب وادی ہیں۔ یہاں کے جنگلات، آسمان دکھائی دینے والا صاف دریا، ہر قسم کے پھلدار درخت اور سب سے بڑھ کر یہاں کے محنت کش لوگ یہاں کی خوبصورتی کو چار چاند لگاتے ہیں ۔

دیر میں آباد قوم زیادہ تر یوسفزئی پٹھان ہے جو پندرھویں صدی میں یہاں آباد ہوئے تھے۔ اس سے قبل دسویں صدی سے پندرھویں صدی کے درمیان یہاں پر کوہستانی کافروں کی حکومت رہی تھی اسی مناسبت سے ریاست دیر اس زمانے میں کافرستان کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ سلطنت کافرستان دیر کے زیریں علاقوں سے لیکر چترال میں کیلاش کی وادیوں تک پھیلی ہوئی تھی۔

پندرھویں صدی سے سترویں صدی کے وسط یہاں کے بزرگان دین اخون الیاس، اخون لاہور اور اخون سالاک کی تعلیمات کی بدولت بیشتر رعایا مشرف بہ اسلام ہو چکے تھے۔

ریاست دیر مختلف ادوار میں الگ تہذیبوں کے زیر اثر رہا اسی وجہ سے ریاست دیر کا نام ہر دور کی تہذیب کی مناسبت سے رکھا گیا۔ اس کے علاؤہ دیر کے جغرافیائی خدو خال بھی اس کی تسمیہ سے نمایاں نظر آتے ہیں۔

ماضی میں ریاست دیر مختلف ناموں سے جیسے سکندر اعظم کے دور کے مورخین نے اسے “گورائے” کے نام سے یاد کیا ہے۔سولہویں صدی میں بابر کے ساتھ آئے ہوئے مورخین نے اسے “یاغستان” اور “بلورستان”سے یاد کیا ہے۔

یونانیوں کی تاریخ کے مطابق جب سکندر اعظم نے 327 قبل مسیح یہاں پر حملہ کیا تو اس وقت دیر کا علاقہ مساگا سلطنت کا حصہ تھا، اس لیے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ دیر کا اصل اور سب سے قدیم نام “مساگا” تھا جو تین سو سال تک اسے نام سے یاد کیا جاتا رہا۔

دیر کی موجودہ نام کی وجہ تسمیہ یہاں کی تاریخ دانوں نے یہاں کی مشہور دریاء، دریائے پنجکوڑہ کے کنارے چوتھی صدی عیسوی میں بدھ مت کے سینکڑوں خانقاہوں سے منسوب کیا ہے۔ چونکہ “دیر” عربی زبان میں خانقاہ کو کہتے ہیں اور عربی زبان سے موافقت کی وجہ یہاں کی آباء و اجداد بقول مؤرخین تیسری صدی عیسویں جزیرۃالعرب سے آئے ہوئے تھے ۔

اس کے علاؤہ مورخین نے مختلف ادوار میں دیر یہاں کی پانچ دریاؤں کی مناسبت سے “پنجکوڑہ” کے نام سے بھی یاد کیا ہے۔
یہاں کی باشندوں کے بقول دیر 120 کلومیٹر لمبی وادی کے آخری سرے پر پہاڑوں کے درمیان واقع ہیں اسے وجہ سے اسکا نام دیر یعنی “بہت دور اور کافی#وقت لینے والا” رکھا گیا ہے۔

سترھویں صدی میں یوسفزئی پٹھانوں کی یہاں پر آباد ہونے کے بعد اس ریاست کا نام دیر رکھا گیا ہے جو کہ پہلے بار چوتھی صدی عیسوی میں بدھ مت کے عروج کے زمانے میں رکھا گیا تھا۔

The post مختلف ادوار کی مناسبت سے دیر کی تاریخ اور وجہ تسمیہ تحریر از: واجد یوسفزئی appeared first on Public Sphare.

]]>
http://publicsphare.com/2024/03/28/%d9%85%d8%ae%d8%aa%d9%84%d9%81-%d8%a7%d8%af%d9%88%d8%a7%d8%b1-%da%a9%db%8c-%d9%85%d9%86%d8%a7%d8%b3%d8%a8%d8%aa-%d8%b3%db%92-%d8%af%db%8c%d8%b1-%da%a9%db%8c-%d8%aa%d8%a7%d8%b1%db%8c%d8%ae-%d8%a7%d9%88/feed/ 0 1073
ڈیپ فیکس مواد کی شناخت کیسے کی جائے ؟ تحریر:عبید اللہ http://publicsphare.com/2024/03/25/%da%88%db%8c%d9%be-%d9%81%db%8c%da%a9%d8%b3-%d9%85%d9%88%d8%a7%d8%af-%da%a9%db%8c-%d8%b4%d9%86%d8%a7%d8%ae%d8%aa-%da%a9%db%8c%d8%b3%db%92-%da%a9%db%8c-%d8%ac%d8%a7%d8%a6%db%92-%d8%9f-%d8%aa/ http://publicsphare.com/2024/03/25/%da%88%db%8c%d9%be-%d9%81%db%8c%da%a9%d8%b3-%d9%85%d9%88%d8%a7%d8%af-%da%a9%db%8c-%d8%b4%d9%86%d8%a7%d8%ae%d8%aa-%da%a9%db%8c%d8%b3%db%92-%da%a9%db%8c-%d8%ac%d8%a7%d8%a6%db%92-%d8%9f-%d8%aa/#respond Mon, 25 Mar 2024 06:27:16 +0000 http://publicsphare.com/?p=1065 ڈیپ فیکس مواد کی شناخت کیسے کی جائے ؟اس سوال کے جواب کو جاننے سے […]

The post ڈیپ فیکس مواد کی شناخت کیسے کی جائے ؟ تحریر:عبید اللہ appeared first on Public Sphare.

]]>
ڈیپ فیکس مواد کی شناخت کیسے کی جائے ؟اس سوال کے جواب کو جاننے سے پہلے ہمیں یہ معلوم ہونا چاہئیے کہ ڈیپ فیکس کس بلا کا نام ہے اور اس کا آغاز کب ہوا؟ ڈیپ فیکس،دراصل مصنوعی تصاویر اور ویڈیوز ہیں جو خاص قسم کی مشین لرننگ کے ذریعے تیار کی جاتی ہیں،جسے “ڈیپ لرننگ”کہا جاتا ہے۔اس ڈیپ لرننگ ہی کی وجہ سے اس عمل کو ڈیپ فیکس کا نام دیا گیا ہے ۔اب آتے ہیں اپنے اصلی موضوع کی جانب کہ ڈیپ فیکس مواد کی شناخت کیسے کی جائے ؟اس کی شناخت کے لیے کچھ خاص باتوں پر توجہ دینا نہایت اہم ہے۔چہرے پر تاثرات کا نہ ہونا۔آنکھوں کو نہ جھپکنا یا اگر جھپکیں تو عجیب معلوم ہوں ،تو سمجھ لیں کہ یہ جعلی مواد ہے۔ڈیپ فیکس مواد میں چہرے کی رنگت کو دیکھ کر یہ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ آیا تصویر یا ویڈیو میں چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے یا نہیں۔چہرے کے گرد یا کانوں اور بالوں کے گرد دھندلاپن اس کی ایک اہم نشانی ہے۔ڈیپ فیکس مواد کی شناخت میں آخری لیکن سب سے اہم شے آواز کے سننے اور ہونٹوں کے ہلنے میں تضاد کا نظر آنا ہے۔بین الااقوامی سطح پر کثیر تعداد میں ادارے اس کی روک تھام کے لیے اقدامات کررہے ہیں۔2019ء میں فیس بک نے “ڈیپ فیکس ڈیٹیکشن چیلنج” منعقد کیا ،جس کی انعامی رقم دس لاکھ امریکی ڈالر تھی۔اس چیز کے امکانات بہت کم ہیں کہ ڈیپ فیکس کو مکمل طور پر بند کردیا جائے کیونکہ فلم اور گیمنگ انڈسٹری کا انحصار اس ہی پر ہے۔

The post ڈیپ فیکس مواد کی شناخت کیسے کی جائے ؟ تحریر:عبید اللہ appeared first on Public Sphare.

]]>
http://publicsphare.com/2024/03/25/%da%88%db%8c%d9%be-%d9%81%db%8c%da%a9%d8%b3-%d9%85%d9%88%d8%a7%d8%af-%da%a9%db%8c-%d8%b4%d9%86%d8%a7%d8%ae%d8%aa-%da%a9%db%8c%d8%b3%db%92-%da%a9%db%8c-%d8%ac%d8%a7%d8%a6%db%92-%d8%9f-%d8%aa/feed/ 0 1065
پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے تحریر: جہانگیر خان http://publicsphare.com/2024/03/02/%d9%be%d8%a7%da%a9%d8%b3%d8%aa%d8%a7%d9%86-%d9%85%db%8c%da%ba-%d8%b3%d8%a8-%da%a9%da%86%da%be-%da%86%d9%84%d8%aa%d8%a7-%db%81%db%92-%d8%aa%d8%ad%d8%b1%db%8c%d8%b1-%d8%ac%db%81%d8%a7%d9%86/ http://publicsphare.com/2024/03/02/%d9%be%d8%a7%da%a9%d8%b3%d8%aa%d8%a7%d9%86-%d9%85%db%8c%da%ba-%d8%b3%d8%a8-%da%a9%da%86%da%be-%da%86%d9%84%d8%aa%d8%a7-%db%81%db%92-%d8%aa%d8%ad%d8%b1%db%8c%d8%b1-%d8%ac%db%81%d8%a7%d9%86/#respond Sat, 02 Mar 2024 11:12:16 +0000 http://publicsphare.com/?p=1058 _پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے_ بہت آسان ہوتا ہے اپنے گناہوں اور کوتاہیوں کو […]

The post پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے تحریر: جہانگیر خان appeared first on Public Sphare.

]]>
_پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے_

بہت آسان ہوتا ہے اپنے گناہوں اور کوتاہیوں کو دوسروں کے گلے کا ہار بنانا، اپنی نااہلیوں پر حالات کے سازگار نہ ہونے کا پردہ ڈالنا، خود کو دودھ کا دھلا اور دوسروں کو کچرے کا ڈھیر کہنا، خود کو بے گناہ اور دوسروں کو گناہ گار ٹہھرانا، خود کو عالم اور دوسروں کو جاہل سمجھنا، خود کو معصوم اور دوسروں کو شاطر اور چالاک سمجھنا، خود کو حلالی اور دوسروں کو حرامی کہنا، خود کو جنتی اور دوسروں کو جہنمی کہنا، وغیرہ وغیرہ۔۔۔

  1. یہی حال آج کل ہمارا بھی ہے، اپنے ہر گناہ اور غلط فعل کو “پاکستان” کا نام جو دیا ہے۔ آپ نے ہزار مرتبہ یہ جملہ سنا ہوگا، “پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے”۔ اس کی تفصیل پر جانے سے پہلے میں آپ سے کچھ معصومانہ سوالات پوچھنا چاہتا ہوں، کیا پاکستان میدانوں اور عمارتوں کا نام ہے؟ کیا پاکستان چرند، پرند اور خزند کا نام ہے؟ کیا پاکستان دریاوں اور پہاڑوں کا نام ہے؟ کیا پاکستان حیوانات اور نباتات کا نام ہے؟ کیا پاکستان جنات کا نام ہے؟ اگر ان تمام سوالات کا جواب “ہاں” ہے تو پھر اوپر دئیے ہوئے جملے (پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے) پر کچھ خاص بات نہیں ہو سکتی اور اس پر ہم اپنا قیمتی وقت ضائع نہیں کر سکتے لیکن اگر ان سوالات کا جواب “نا” ہے تو پھر اس جملے پر لمبی بات ہو سکتی ہے اور کرنی بھی چاہیئے کیونکہ “نا” والے جواب سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر پاکستان اوپر بیان کی ہوئی چیزوں کا نام نہیں ہے تو پھر یقینا یہ “انسانوں” کا نام ہے۔ میرے نامکمل اور محدود علم کے مطابق ان سوالات کا جواب “نا” ہے، میرا مطلب یہ ہے کہ اس موضوع پر بات ہوسکتی ہے اور میں کرنا چاہتا ہوں۔

بات کچھ یوں ہے کہ پاکستان میں طرح طرح لاعلاج بیماریاں پھیل چکی ہیں جن میں بدعنوانی، سود خوری، رشوت ستانی، بدمعاشی، چوری، جھوٹ اور حق تلفی وغیرہ سر فہرست ہیں اور سب سے اہم یہ کہ ان تمام بیماریوں کا تعلق میدانوں، پہاڑوں، دریاوں، جانوروں، پرندوں اور پودوں سے نہیں ہے بلکہ ان کا تعلق اشرف المخلوقات (انسان) سے ہے۔

اب آتے ہیں تفصیل کی طرف جس کی اشد ضرورت ہے۔ چونکہ پاکستان “انسانوں” کا نام ہے اور اوپر دی گئی بیماریوں کا تعلق بھی انسانوں سے ہے اس لئے میں انسانوں کو ہی اپنا موضوع تحریر چن رہا ہوں۔
کوئی رشوت لے کر، دوسرے کا حق بیچ کر کہتا ہے پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے۔ کوئی رشوت دے کر، دوسرے کا حق چھین کر کہتا ہے پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے۔ کوئی جعلی ڈگری حاصل کرکے، ملک و قوم کا مستقبل داو پر لگا کر کہتا ہے پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے۔ کوئی دولت کی طاقت سے دوسروں کے کندھوں پر چڑھ کر، آگے جاکر کہتا ہے پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے۔ کوئی سفارش سے نوکری حاصل کرکے، مستحق لوگوں کا حق مار کر کہتا ہے پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے۔ کوئی ایک مرغی اور بریانی کی پلیٹ کے بل بوتے پر اپنا امتحان پاس کروا کر کہتا ہے پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے۔ کوئی دودھ میں پانی شامل کرکے، اسے بیچ کر کہتا ہے پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے۔ کوئی بکرے کی جگہ کتا ذبح کرکے، اسے بیچ کر کہتا ہے پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے۔ کوئی “ناٹ فار سیل” والی کتب بیچ کر کہتا ہے پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے۔

میں بذات خود کبھی کبھی یہ سوچ کر بہت پریشان ہو جاتا ہوں کہ یہ پاکستان آخر ہے کیا؟ کیا یہ کوئی بھوت بنگلہ ہے یا کوئی نادیدہ قوت ہے؟ نہیں بلکل نہیں! بلکہ پاکستان ہم خود ہیں۔ ہم انسانوں نے مل کر ایک ملک و قوم کی بنیاد رکھی ہے جس کا نام “پاکستان” ہے۔ اگر ہم سب اس خطہ ارض سے ہجرت کر جائیں یا کوئی آسمانی یا مصنوعی آفت ہمیں نیست و نابود کردے تو پھر یہ خطہ ارض پاکستان نہیں رہے گا بلکہ یہ علاقہ غیر بن جائے گا۔ ہم نہیں رہیں گے تو پاکستان بھی نہیں رہے گا۔ نام “پاکستان” ہم انسانوں میں تب تک زندہ ہے جب تک ہماری سانسیں چل رہی ہیں ورنہ اکیلے یہ کچھ بھی نہیں کیونکہ نام “پاکستان” کا مطلب ہے “پاک لوگوں کا وطن”۔ اس سے اگر آپ لفظ “لوگ” مٹاو گے تو یہ بے معنی ہو کر خود بھی مٹ جائے گا۔

اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم کب تک اپنی بے ایمانیوں، کوتاہیوں، غلطیوں اور گناہوں پر نام “پاکستان” کا پردہ ڈال کر خود کو بے گناہ اور معصوم ثابت کرتے رہیں گے۔ جملہ “پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے” میں لفظ “پاکستان” سے مراد پہاڑ، دریا، میدان اور عمارتیں نہیں ہیں کیونکہ یہ پہاڑ، دریا، میدان اور عمارتیں نہ تو رشوت لیتے ہیں، نہ رشوت دیتے ہیں، نا کسی کو دھوکہ دیتے ہیں، نا کسی کا حق مارتے ہیں اور نہ ہی کسی کو مار سکتے ہیں۔ بھئی! یہ کام تو ہمارے ہیں۔ رشوت بھی ہم لیتے اور دیتے ہیں، دھوکہ بھی ہم دیتے ہیں اور دوسرے کا حق بھی ہم ہی مارتے ہیں۔ اس لئے جملہ “پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے” میں لفظ “پاکستان” سے مراد ہم انسان ہیں۔

اب کوئی مجھے یہ بتائے کہ پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے یا ہمارے کھاتہ میں سب کچھ چلتا ہے؟ ہم کب تک نام “پاکستان” کے پیچھے چھپتے رہیں گے اور اس کلمہ کا ورد کرتے رہیں گے؟ بس! اب بہت ہو گیا۔ اب خود کو بدلنا ہے اور معاشرے کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے۔ لہذا آج سے مصمم ارادہ کریں کہ آئندہ میں کوئی بھی ناجائز کام نہیں کروں گا اور اگر کروں گا تو پھر یہ نہیں کہوں گا کہ پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے بلکہ یہ کہوں گا کہ میں اپنے مفاد کیلئے کسی بھی ناجائز حد تک گر سکتا ہوں، میں ایک بد فعل انسان ہوں اور میرا نام “پاکستان” ہے۔
یہ یاد رکھیئے، جس دن آپ نے اس کلمہ (پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے) کا ورد کرنا چھوڑ دیا، پھر دیکھنا معاشرہ کیسے بدلتا ہے اور کامیابی کیسے آپ کے قدم چھومتی ہے۔
تحریر: جہانگیر خان

The post پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے تحریر: جہانگیر خان appeared first on Public Sphare.

]]>
http://publicsphare.com/2024/03/02/%d9%be%d8%a7%da%a9%d8%b3%d8%aa%d8%a7%d9%86-%d9%85%db%8c%da%ba-%d8%b3%d8%a8-%da%a9%da%86%da%be-%da%86%d9%84%d8%aa%d8%a7-%db%81%db%92-%d8%aa%d8%ad%d8%b1%db%8c%d8%b1-%d8%ac%db%81%d8%a7%d9%86/feed/ 0 1058
فیک نیوز کا بڑھتا ہوا رجحان تحریر: نازش قریشی http://publicsphare.com/2024/02/27/%d9%81%db%8c%da%a9-%d9%86%db%8c%d9%88%d8%b2-%da%a9%d8%a7-%d8%a8%da%91%da%be%d8%aa%d8%a7-%db%81%d9%88%d8%a7-%d8%b1%d8%ac%d8%ad%d8%a7%d9%86-%d8%aa%d8%ad%d8%b1%db%8c%d8%b1/ http://publicsphare.com/2024/02/27/%d9%81%db%8c%da%a9-%d9%86%db%8c%d9%88%d8%b2-%da%a9%d8%a7-%d8%a8%da%91%da%be%d8%aa%d8%a7-%db%81%d9%88%d8%a7-%d8%b1%d8%ac%d8%ad%d8%a7%d9%86-%d8%aa%d8%ad%d8%b1%db%8c%d8%b1/#respond Tue, 27 Feb 2024 08:01:50 +0000 http://publicsphare.com/?p=1049 لفظ “لٹریسی” عام طور پر پڑھنے لکھنے کی صلاحیت کو بیان کرتا ہے۔ پڑھنے کی […]

The post فیک نیوز کا بڑھتا ہوا رجحان تحریر: نازش قریشی appeared first on Public Sphare.

]]>
لفظ “لٹریسی” عام طور پر پڑھنے لکھنے کی صلاحیت کو بیان کرتا ہے۔ پڑھنے کی لٹریسی اور میڈیا کی لٹریسی میں بہت کچھ مشترک ہے۔ میڈیا لٹریسی میڈیا کی مختلف اقسام کی شناخت کرنے اور ان کے بھیجے جانے والے پیغامات کو سمجھنے کی صلاحیت ہے۔ بچے ، بڑھے اور بوڑھے روایتی میڈیا (ٹی وی، ریڈیو، اخبارات اور رسائل) سے کہیں زیادہ ذرائع سے بہت زیادہ معلومات حاصل کرتے ہیں۔تمام میڈیا ایک چیز کا اشتراک کرتا ہے: کسی نے اسے بنایا،اور یہ ایک وجہ سے بنایا گیا تھا۔ اس وجہ کو سمجھنا میڈیا کی لٹریسی کی بنیاد ہے۔
پاکستان کے عام شہری ڈس انفارمیشن کا شکار ہیں ۔ خاص کرکے جن کی تعلیمی قابلیت کچھ خاص نہیں ۔غلط معلومات اور اس سے منسلک سماجی بد امنی اس سال ایک اہم مسلۂ ہوگا کیونکہ اس سال امریکہ ،بھارت اور پاکستان سمیت بہت سے ممالک میں انتخابات ہونے جارہے ہیں جس میں 2 عرب سے زیادہ لوگ ووٹ ڈالیں گے۔
جہاں میڈیا اور آرٹیفیشل انٹیلیجینس کے استعمال کے متعدد فوائد وہیں کچھ غیر معمولی نقصانات بھی ہیں جن کی مثال زیل میں دیے گئے کیس سے واضح ہے۔
پابندیوں میں گِھری، گرفتاریوں میں جکڑی اور مقدموں میں الجھی ہوئی پاکستان تحریک انصاف آرٹیفیشل انٹیلیجنس (اے ائی) کی مدد اورمختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے ذریعے اپنی انتخابی مہم زورو شور سے جاری رکھے ہوئے ہے۔

پاکستان میں، جہاں پی ٹی آئی کے چئیرمین عمران خان کا میڈیا میں نام تک لینے پر بھی پابندی رہی ہے وہاں اے آئی کی مدد سے جیل میں قید سابق وزیر اعظم کا پیغام ان کی اپنی زبان میں گھر گھر پہنچایا جا رہا ہے۔
پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان متعدد مقدمات میں اور مختلف الزامات کے تحت جیل میں ہیں اور ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف اپنی انتخابی مہم کے لیے روایتی طریقوں کے بجائے سوشل میڈیا اور مصنوعی ذہانت پر تکیہ کر رہی ہے۔
عمران خان کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا ایک خطاب دسمبر میں منظر عام پر آیا جب کہ وہ مئی سے لے کر اب تک جیل میں ہیں ۔یہ آڈیو اے آئی سے بنوائی گئی ہے جس کے آغاز میں چند الفاظ عمران خان کی پرانی ویڈیو سے لیے گئے ہیں جبکہ باقی کی آڈیو اے آئی سے بنوائی گئی ہے ۔ وہ لوگ جو عمران خان کے پیروکار ہیں انہوں نے اس چیز پر یقین بھی کرلیا کہ یہ عمران خان کا ہی خطاب ہے ۔
اسی طرح الیکشن ۲۰۲۴ میں اے آئی ڈس انفارمیشن کا ذریعہ بن رہا ہے
جو کہ انتخابات کے نتائج کو بہت متاثر کر رہاہے۔
وہ تمام ووٹرز جو حکومت سے تنگ آگئے ہیں اور جز باتی ہیں وہ ایسی معلومات پر بہت جلد یقین کر لیتے ہیں اور اگر انہیں یہ واضح بھی کر دیا جائے کہ یہ انفارمیشن جعلی ہے انہیں تب بھی فرق نہیں پڑھتا۔اسی طرح ۲۰۱۸ کے عام انتخابات میں بھی سیاسی اہداف حاصل کرنے کے لیے غلط ہیش ٹیگز کا اتنا استعمال کیا گیا کہ وہ ٹرینڈنگ پر چلے گئے ۔اس بارے میں پاکستانی میگزین دی ہیرالڈ میں بیان کیا گیا کہ کس طرح ۲۰۱۸ میں ہیش ٹیگز کے زریعے عدلیہ کو نشانہ بنایا گیا ۔اس سے پہلے بھی پاکستان میں مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن کی بہت سی مثالیں دیکھی جا چکی ہیں جیسے کے نسل پرستی اور عورتوں کی تصاویر کا غلط استعمال جو کہ اے آئی ایپس کے زریعے ممکن ہوا اور اس سے بہت خون خرابا بھی کیا گیا جس کے منظر سامنے آتے رہیں ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں دشمن ممالک نے پاکستان کے خلاف سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کیا ہے،اِس کی بہت بڑی مثال یورپ میں موجود ”ڈس انفو لیب“ کی رپورٹ ہے جس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ بھارت پندرہ سال سے پاکستان کے خلاف مختلف ویب سائٹس کے ذریعے لابنگ اور پراپیگنڈہ میں مصروف تھا۔اِس کے علاوہ اپریل 2021ء میں جب تحریک لبیک پاکستان کا احتجاج جاری تھا تو ٹویٹر پر بننے والا ٹرینڈ ”#سول وار اِن پاک“ بھارتی ٹوئٹر ہینڈلز نے بنایا تھا،اِس ٹرینڈ کو استعمال کرنے والی 84,000 ٹویٹس اور ریٹویٹس بھارتی فیک اکاونٹس سے کی گئی تھیں۔دس میں سے سات شہر جہاں یہ ”ٹاپ ٹرینڈ“ تھا ان کا تعلق بھی بھارت سے تھا۔ 2019ء میں پلوامہ حملے کے بعد جھوٹی تصویریں اور ویڈیوز بنا کر عام کی گئیں۔ابھی حال ہی میں جب ایران نے پاکستان میں میزائل داغے تو بھارت نے تنازعہ بڑھانے کی بھرپور کوشش کی، سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلوں پر بڑھا چڑھا کر معاملے کو پیش کیا۔اِس کے علاوہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو ملک سے باہر بیٹھ کر ہزاروں سوشل میڈیا اکاونٹس کے ذریعے پراپیگنڈہ مہم چلا رہے ہیں۔ملک کے اندر بھی ایسی کئی منظم حرکتیں کی جاتی ہیں۔پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ختم ہونے کے بعد پاک فوج کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا،لوگوں کو فوج کے خلاف اُکسایا گیا جس کا نتیجہ نو مئی کی صورت میں نکلا۔تاریخ میں ایسی مثال نہیں ملتی جب شہداء کی یادگاروں،آرمی تنصیبات اور کور کمانڈر کے گھر پر حملہ کیا گیا ہو۔عدلیہ بھی اِس شر سے محفوظ نہیں رہی، جب بھی کسی سیاسی جماعت کی منشا کے خلاف فیصلہ آیا، اس نے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کیا۔
گمراہ کن خبروں کا پاکستان میں پھیلنا آخر اتنا بڑا مسلۂ کیوں ہے ؟ اس کی وجہ صرف میڈیا لٹریسی کا نہ ہونا ہے ۔ اکثر ڈس انفارمیشن آن لائین پھیلتی ہے اس لیے لوگوں کو اس کا علم نہیں ہے کہ اس سے کس طرح نمٹا جائے ۔ماہرین کے مطابق اس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ نوجوان نسل روایتی میڈیا پر اعتماد رکھتی ہے ۔ان کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ یہ انفارمیشن حقیقت پر مبنی ہے یاں پھر اے آئی جینریٹڈ ہے ۔ ہمیں یقینی طور پر ان خطوط پر سوچنا شروع کرنا ہوگا اور اپنے ہاں سکول کی سطح پر میڈیا سے متعلق تعلیم زیادہ سے زیادہ ترویج کرنا ہوگی۔کیونکہ یہ وہ وقت ہوتا ہے خاص طور پر ہائی سکول کی سطح پر جب نوجوان زہن سیاسی شعور حاصل کر رہے اور دنیا کو سمجھ رہے ہوتے ہیں ۔

The post فیک نیوز کا بڑھتا ہوا رجحان تحریر: نازش قریشی appeared first on Public Sphare.

]]>
http://publicsphare.com/2024/02/27/%d9%81%db%8c%da%a9-%d9%86%db%8c%d9%88%d8%b2-%da%a9%d8%a7-%d8%a8%da%91%da%be%d8%aa%d8%a7-%db%81%d9%88%d8%a7-%d8%b1%d8%ac%d8%ad%d8%a7%d9%86-%d8%aa%d8%ad%d8%b1%db%8c%d8%b1/feed/ 0 1049
دادا کی پوتی تحریر:محمد سلیمان http://publicsphare.com/2024/02/20/%d8%af%d8%a7%d8%af%d8%a7-%da%a9%db%8c-%d9%be%d9%88%d8%aa%db%8c-%d8%aa%d8%ad%d8%b1%db%8c%d8%b1%d9%85%d8%ad%d9%85%d8%af-%d8%b3%d9%84%db%8c%d9%85%d8%a7%d9%86/ http://publicsphare.com/2024/02/20/%d8%af%d8%a7%d8%af%d8%a7-%da%a9%db%8c-%d9%be%d9%88%d8%aa%db%8c-%d8%aa%d8%ad%d8%b1%db%8c%d8%b1%d9%85%d8%ad%d9%85%d8%af-%d8%b3%d9%84%db%8c%d9%85%d8%a7%d9%86/#respond Tue, 20 Feb 2024 06:46:23 +0000 http://publicsphare.com/?p=1045 سیدہ شہر بانو بخاری، جنہیں شوق سے “دادا کی پوتی” کہا جاتا ہے، نے حلقہ […]

The post دادا کی پوتی تحریر:محمد سلیمان appeared first on Public Sphare.

]]>
سیدہ شہر بانو بخاری، جنہیں شوق سے “دادا کی پوتی” کہا جاتا ہے، نے حلقہ این اے 177 سے پاکستان مسلم لیگ ن (پی ایم ایل این) پارٹی کی نمائندگی کرتے ہوئے الیکشن لڑا۔حلقہ این اے 177 مظفر گڑھ 3 میں 2024 کے انتخابات میں مختلف امیدواروں کے درمیان سخت مقابلہ دیکھنے میں آیا۔دادا کی پوٹی کے انتخابی نتائج سے پتہ چلا ہے کہ حلقہ این اے 177 میں سخت مقابلہ ہوا۔ اس حلقے سےآزاد امیدوار محمد معظم علی خان کامیاب ہوئے، انہوں نے 113,892 ووٹ حاصل کیے، دوسری جانب دادا کی پوتی کو صرف 67,964 ووٹ ملے۔ دادا کی پوتی کی دادا کے نام پر ووٹ مانگنےکی کوشش کامیاب نہ ہو سکی۔ 5نشستوں پر لڑنے والا دادا کی پوتی کا پورا خاندان شکست کھاگیا۔ پورا خاندان ۲قومی ، ۳صوبائیاسمبلی سمیت ۵نشستوں پر الیکشن لڑ رہا تھا۔ مظفر گڑھ کی تحصیل کے سابق چیئرمین کشمیر کمیٹی سید باسط سلطان بخاری خاندان سمیت بری طرح ہار گئے۔ سید باسط سلطان کی چھوٹی بیٹی ماہا بخاری نےانتخابی مہم کے دوران دادا کی خدمات کے نام پر ووٹرز کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اور ایسی تقاریر کیں جو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئیں۔ ماہا بخاری نے پوری انتخابی مہم دادا عبداللہ شاہ بخاری کے نام پر چلائی۔ ماہا نے ووٹوں کے واسطے دیے، علاقے کے بزرگوں کو اپنے دادا کا دوست کہا۔ دادا کی پوتی کی ہار پرسوشل میڈیا صارفین نے دلچسپ تبصرے کیے۔ ایک صارف نے کہا کہ باقی سب تو جاری وساری ہے مگر دادا کی پوتی جس کا انتخابی نشان مرہ ہوا دادا تھااس کی کوئی خبر ہے کسی کو۔ ایک اور صارف نے کہا کہ الیکشن میں کی گئی دھوکا بازی کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ میں پورا دن دادا کی پوتی کے نتیجے کا انتظار کر تا رہا مگر پتہ چلا کہ وہ تو امیدوار تھی ہی نہیں۔ میں میں کی تڑیاں اور کام کر وانے کے دعوے یوں ہی کر رہی تھی نتیجہ یہ نکلا کہ لوگوں کو ماہا بخاری یاد ہو گیااور بھول گئے کہ ووٹ اس کے ابا جان اور بہن کو دینا تھا۔ دادا کی پوتی انتخابی مہم کے لیے امریکا سے آئی تھی اور اب الیکشن میں ہارنےکے بعدامریکاجا چکی ہیں۔

 

The post دادا کی پوتی تحریر:محمد سلیمان appeared first on Public Sphare.

]]>
http://publicsphare.com/2024/02/20/%d8%af%d8%a7%d8%af%d8%a7-%da%a9%db%8c-%d9%be%d9%88%d8%aa%db%8c-%d8%aa%d8%ad%d8%b1%db%8c%d8%b1%d9%85%d8%ad%d9%85%d8%af-%d8%b3%d9%84%db%8c%d9%85%d8%a7%d9%86/feed/ 0 1045
انبیاء اور مسلم سائنسدانوں کو مشرق اور مغرب میں مختلف ناموں سے کیوں یاد کیا جاتا ہے؟ تحریر: فرح جی http://publicsphare.com/2023/12/13/%d8%a7%d9%86%d8%a8%db%8c%d8%a7%d8%a1-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d9%85%d8%b3%d9%84%d9%85-%d8%b3%d8%a7%d8%a6%d9%86%d8%b3%d8%af%d8%a7%d9%86%d9%88%da%ba-%da%a9%d9%88-%d9%85%d8%b4%d8%b1%d9%82-%d8%a7%d9%88%d8%b1/ http://publicsphare.com/2023/12/13/%d8%a7%d9%86%d8%a8%db%8c%d8%a7%d8%a1-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d9%85%d8%b3%d9%84%d9%85-%d8%b3%d8%a7%d8%a6%d9%86%d8%b3%d8%af%d8%a7%d9%86%d9%88%da%ba-%da%a9%d9%88-%d9%85%d8%b4%d8%b1%d9%82-%d8%a7%d9%88%d8%b1/#respond Wed, 13 Dec 2023 08:35:13 +0000 http://publicsphare.com/?p=1025 ہم جانتے ہیں کہ اہل مغرب انبیاء کو مختلف ناموں سے آزماتے ہیں جیسے کہ […]

The post انبیاء اور مسلم سائنسدانوں کو مشرق اور مغرب میں مختلف ناموں سے کیوں یاد کیا جاتا ہے؟ تحریر: فرح جی appeared first on Public Sphare.

]]>
  • ہم جانتے ہیں کہ اہل مغرب انبیاء کو مختلف ناموں سے آزماتے ہیں جیسے کہ حضرت عیسیٰ کو حضرت عیسیٰ کو حضرت داؤد کو داؤد، حضرت سلیمان کو سلیمان، حضرت ابراہیم کو ابراہیم، حضرت اسحاق کو اسحاق، حضرت موسیٰ اور حضرت یوسف کو یوسف۔ ناموں سے جانا جاتا ہے۔ انبیاء کے یہ نام یونانی ناموں کی انگریزی صورت۔
    بالکل اسی طرح سے مسلم بھی اہل مغرب میں الگ الگ نام رکھتے ہیں کہ جیسے بو علی سینا کو Avicenna، الفرابی کو Alphacabins، ابن رشد کو Averroes، جابر بن حیان کو Gaber، رازی کو Rhazes اور ابوالقاسمراوی کو Abulcasis۔ ناموں سے مشقت اور جانا جاتا ہے۔
  • مگر سوال یہ ہے کہ آخر ایک ہی شخص کے لیے دو مختلف نام کیوں؟

    دراصل اس کی مختلف وجوہات ہیں۔انبیاء کے ناموں کے حوالے سے اہل مغرب کا دعوی ہے کہ یونانی نام ہی اصلی نام ہیں اور عربی نام یونانی ناموں سے اخذ کیے گئے ہیں۔ اس کے برعکس مسلمانوں کے مطابق عربی نام ہی حقیقی ہیں۔ علاوہ ازیں عربی زبان یونانی زبان سے زیادہ قدیم ہے۔اگر بات مسلم سائنس دانوں کے مختلف ناموں کی کی جائے تو صورت حال مختلف ہے۔ دراصل ان تمام سائنس دانوں کا تعلق سنہرے اسلام  دور سے تھا جب مسلمان علم کے میدان میں ترقی کی نئی نئی منازل طے کر رہے تھے۔ قرون وسطی میں مشرق اور مغرب کے درمیان تجارت سے ثقافتی تعلقات اور علمی فروغ میں تیزی آئی۔ لہذا اہل مغرب نے مسلم سائنس دانوں کے ناموں کی لاطینی سازی کی۔ آغاز میں اس کا مقصد مخص لسانی مطابقت اور ثقافتی ہم آہنگی پیدا کرنا تھا اور مغربی ادبی روایات کے ڈھانچے میں ڈھالنا تھا مگر اس کے باعث کئی منفی اثرات پیدا ہوئے۔ جن میں مسلمانوں کی ثقافتی شناخت مسخ ہوئی ان کی علمی کاوشوں کا استحصال کیا گیا اور یورپ مرکزیت کے تعصب نے جنم لیا۔

    ناموں کی لاطینی سازی کے باعث بہت سی غلط فہمیاں بھی پھیلی۔ کچھ مغربی لکھاری اور تاریخ دان مثلاً Will Durantاور Sarton نے یہ دعوی بھی کیا کہ ان مسلم سائنسدانوں کا تعلق مغرب سے ہے۔ دورِ حاضر میں حقیقی ناموں کے استمعال پر اصرار کیا جاتا ہے تاکہ اس قوم کی علمی اور ادبی کاوشوں کو صحیح معنوں میں سراہا جاسکے۔

     

    The post انبیاء اور مسلم سائنسدانوں کو مشرق اور مغرب میں مختلف ناموں سے کیوں یاد کیا جاتا ہے؟ تحریر: فرح جی appeared first on Public Sphare.

    ]]>
    http://publicsphare.com/2023/12/13/%d8%a7%d9%86%d8%a8%db%8c%d8%a7%d8%a1-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d9%85%d8%b3%d9%84%d9%85-%d8%b3%d8%a7%d8%a6%d9%86%d8%b3%d8%af%d8%a7%d9%86%d9%88%da%ba-%da%a9%d9%88-%d9%85%d8%b4%d8%b1%d9%82-%d8%a7%d9%88%d8%b1/feed/ 0 1025
    لاہور کی سوسائٹی جہاں پلاٹ 4100 سو روپے کا تھا۔ تحریر:محمد عبیداللہ http://publicsphare.com/2023/12/12/%d9%84%d8%a7%db%81%d9%88%d8%b1-%da%a9%db%8c-%d8%b3%d9%88%d8%b3%d8%a7%d8%a6%d9%b9%db%8c-%d8%ac%db%81%d8%a7%da%ba-%d9%be%d9%84%d8%a7%d9%b9-4100-%d8%b3%d9%88-%d8%b1%d9%88%d9%be%db%92-%da%a9%d8%a7-%d8%aa/ http://publicsphare.com/2023/12/12/%d9%84%d8%a7%db%81%d9%88%d8%b1-%da%a9%db%8c-%d8%b3%d9%88%d8%b3%d8%a7%d8%a6%d9%b9%db%8c-%d8%ac%db%81%d8%a7%da%ba-%d9%be%d9%84%d8%a7%d9%b9-4100-%d8%b3%d9%88-%d8%b1%d9%88%d9%be%db%92-%da%a9%d8%a7-%d8%aa/#respond Tue, 12 Dec 2023 06:17:39 +0000 http://publicsphare.com/?p=1016 لاہورکے جنوب مشرق میں ایک رہائشی علاقہ نشتر کالونی کے نام سے مقبول ہے۔نشتر کالونی […]

    The post لاہور کی سوسائٹی جہاں پلاٹ 4100 سو روپے کا تھا۔ تحریر:محمد عبیداللہ appeared first on Public Sphare.

    ]]>
    لاہورکے جنوب مشرق میں ایک رہائشی علاقہ نشتر کالونی کے نام سے مقبول ہے۔نشتر کالونی لاہور کی مرکزی سڑک فیروزپور روڈ پر واقع ہے ۔اس کالونی کو بنیادی طور پر مزدور طبقہ کے لیے بنایا گیا۔سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے عہد میں اس کالونی کی سنگ بنیاد رکھی۔تمام پلاٹ پانچ مرلہ کی کٹنگ میں تقسیم کیے گئے ۔محمد خاں جنیجو کے عہد میں جب میاں محمد نواز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب بنے تو انہوں نے اس کالونی کی مزید کٹنگ کرتے ہوئے تمام پلاٹوں کو تین تین مرلہ میں تقسیم کر دیا ۔قرعہ اندازی کے ذریعہ سے تمام پلاٹ مزدور طبقہ (لیبر کلاس) کو فروخت کیے گئے۔ چار ہزار ایک سو روپے (4100)کی معقول رقم میں پلاٹ لوگوں کے حوالے کیے گئے۔اس میں ایک ہزار روپے نقد جمع کروانے تھے جبکہ بقیہ رقم ایک سو روپے ماہانہ اقساط کے ذریعے جمع کروانے تھے۔جیسا کہ قبل از ذکر ہے کہ یہ کالونی خاص طور پر مزدور طبقہ کے لیے مختص کی گئ ۔ اس سے مراد یہ تھا کہ ایک مخصوص حد سے زیادہ آمدنی والا شخص اسے

     

     

    خرید  نہیں سکتا تھا۔اگر موجودہ دور کی بات کریں تو یہ اکتالیس سو روپے کا پلاٹ اب چار کروڑ روپے کی مالیت سے بھی تجاوز کر گیا ہے۔دورحاضر کی بات کریں تو نشتر کالونی کی آبادی ایک لاکھ دس ہزار کے قریب ہے ۔اس کا رقبہ ایک سو سینتالیس ایکڑ (147 ایکڑ)ہے جو کہ  4500 تین تین مرلہ کے پلاٹوں میں تقسیم ہے۔یہاں کل ووٹوں کی تعداد بائیس سے تئیس ہزار (22000-23000)کے درمیان ہے
    اس کے بنیادی ڈھانچے کی طرف نظر دوڑائی جائے تو اس میں آٹھ چھوٹے بڑے پارک ہیں۔ایک گورنمنٹ پرائمری سکول ہے جبکہ تین سوشل ویلفیئر اسکول ہیں۔ان میں ایک پرائمری سکول ہے جبکہ دو طلباء وطالبات کے لیے علیحدہ علیحدہ ہائر سیکنڈری اسکول ہیں۔اگر نجی اسکولوں کی طرف نگاہ دوڑائیں تو تقریباً بیس کے قریب اسکول ہیں۔دو نجی کالج اور ایک یونیورسٹی بھی ہے۔ یونیورسٹی کا نام “ایفرو ایشین انسٹی ٹیوٹ” ہے جو کہ جی سی فیصل آباد کے ساتھ منسلک ہے۔دو سرکاری ڈسپینسریز اور دس کے قریب نجی ہسپتال موجود ہیں ۔ایک پولیس تھانہ ہے جو کہ نشتر تھانہ کے نام سے مقبول ہے ۔اگر ہم مذہبی نقطۂ نظر سے دیکھیں تو یہاں دس سے پندرہ مساجد ہیں جن میں سے چند کے ساتھ مدرسے بھی منسلک ہیں۔تین قبرستان ہیں۔

    علاقہ بھر میں نشتر کالونی کی فوڈ اسٹریٹ ایک خاص درجہ رکھتی ہے ۔کراچی بریانی اور الفضل کی ڈیری پروڈکٹس قابلِ ذکر ہیں ۔تاریخی اعتبار سے یہ علاقہ بہت اہمیت کا حامل ہے ۔نوجوان نسل کو چاہیے کہ اس طرح کے تاریخی علاقہ جات کا مطالعہ کریں ۔امید ہے کہ اس چھوٹی سی کاوش سے تمام قارئین لطف اندوز ہوسکے گے۔و

     

    The post لاہور کی سوسائٹی جہاں پلاٹ 4100 سو روپے کا تھا۔ تحریر:محمد عبیداللہ appeared first on Public Sphare.

    ]]>
    http://publicsphare.com/2023/12/12/%d9%84%d8%a7%db%81%d9%88%d8%b1-%da%a9%db%8c-%d8%b3%d9%88%d8%b3%d8%a7%d8%a6%d9%b9%db%8c-%d8%ac%db%81%d8%a7%da%ba-%d9%be%d9%84%d8%a7%d9%b9-4100-%d8%b3%d9%88-%d8%b1%d9%88%d9%be%db%92-%da%a9%d8%a7-%d8%aa/feed/ 0 1016